277

پشاور مدرسہ دھماکا , ریاست کا روایتی بیانیہ اور مظلوم کی دعا-

 

جمعے کی نماز میرے آبائی گاوں واقع ضلع مالاکنڈ کے ایک مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا-

جب بھی میں گاوں میں ہوتا ہوں تو جمعہ اسی مسجد میں پڑھنے جاتا ہوں- مسجد کا خطیب حافظ مولانا فاروق  نوجوان حافظ قرآن دوست بھی ہے اس لیئے نماز کے بعد اس کے ساتھ نشت بھی ہوتی ہے-

لیکن آج خطیب صاحب کے بیان نے ندامت کے ساتھ ساتھ بے بسی کا احساس بھی دلایا- کہ ہم بحیثیت قوم کتنے مظلوم اور بے بس ہیں-

خطیب  صاحب نے  نبی مکرم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ولادت اور سیرت پر گفتگو بھی کی اور پشاور مدرسے میں ہونے والے بم دھماکے اور معصوم بچوں کے شہادت بارے بھی بات کی-

 تین روز قبل پشاور کے علاقے دیر کالونی میں کوہاٹ روڈ پر واقع مسجد سے متصل مدرسے کے مرکزی ہال میں درسِ قرآن کے دوران دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 8 افراد شہید جب کہ 112 سے زائد زخمی ہو گئے تھے-

پولیس کے مطابق دھماکے سے پہلے ایک مشکوک شخص ہال میں طلبہ کے درمیان ایک بیگ رکھ کر چلا گیا، دھماکے کی شدت سے فرش میں گڑھا پڑ گیا، ایک حصے میں آگ لگ گئی، منبر کی دیوار کا کچھ حصہ گر گیا۔درس دینے والے مولانا رحیم اللہ حقانی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ بم ڈسپوزل یونٹ کے مطابق دھماکا ٹائم ڈیوائس کی مدد سے کیا گیا جس میں 5 کلو بارودی مواد اور چھرے استعمال کیے گئے-

 

پشاور مدرسہ دھماکے بارے بہت صحافی حضرات, ماہرین اور لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں بہت کچھ لکھا بھی ہے اور اس پر بہت بات چیت ہونے کے ساتھ ساتھ ابھی بھی بحث مباحثہ جاری ہے-

بے گناہ معصوم بچوں اور طالب علموں کے قبروں کی مٹی ابھی سوکھی نہیں -

اس سانحے کا غم ابھی تازہ ہے- جن لوگوں نے اس سانحے میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے ان میں غم کے سات ساتھ حکومت سے گلہ اور غصہ بھی پایا جاتا ہے-کہ کیوں حکومت اور ریاست عوام کی حفاظت میں ناکام ہیں-

بات ہورہی تھی خطیب صاحب کے  پشاور مدرسہ  دھماکے بارے بیان کی- بتاتا چلوں کہ مزکورہ خطیب مسجد خود وفاق المدارس پاکستان سے رجسٹرڈ ایک اسلامی جامعہ کے طالب علم ہے, کسی جہادی تنظیم کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ہے, ایک معتدل قسم کے انسان ہے- تعلیم یافتہ بھی ہے اور ساتھ میں قرآن و تفسیر کے طالب علم بھی ہے-

قاری صاحب کا کہنا تھا کہ پشاور مدرسہ دھماکے کی جتنی مذمت بھی کی جائے وہ کم ہے-

بے گناہ اور معصوم طلباء کو قتل کرنا نہ تو کوئی جہاد ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے-جو لوگ ایسا کرتے ہیں یا ان جیسے واقعات کو سپورٹ کرتے ہیں , نہ تو وہ مسلمان کہنے کے لائق ہیں اور نہ ہی وہ کوئی جہاد کررہے ہیں بلکہ ظلم کے مرتکب ٹہرتے ہیں-

قاری صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی اسلامی جامعہ, دارلعلوم یا مدرسہ حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتی ہے اور وفاق المدارس پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ہوتے ہیں-

مدرسے کے منتظم, اساتذہ اور طلباء کا باقاعدہ طور پر بائیو ڈاٹا لیاجاتا ہے, مقامی پولیس اور سول انتظامیہ کے ساتھ بھی رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے-

مدرسے میں پڑھنے والے مقامی اور غیر ملکی طلباء کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور مقامی انتظامیہ اور متعلقہ تھانے کو بھی سارا ریکارڈ فراہم کیا جاتا ہے-

جہادی تنظیم, جرائم پیشہ یا کسی مشتبہ فرد کو خواہ وہ استاد ہو یا طالب علم کو مدرسے میں نہیں رکھا جاسکتا -

خطیب صاحب یہی گلہ کررہے تھے کہ اتنا کچھ کرنے اور حکومت کے احکامات کے مطابق چلنے کے باوجود کیا یہ حکومت اور ریاست کی زمہ داری نہیں بنتی کہ مدارس کو تحفظ فراہم کریں, اسلامی جامعات کے لیئے حفاظتی اقدامات کیئے جائے-

قاری صاحب کا کہنا تھا کہ پہلے تو دھماکا ہوا جس میں معصوم اور بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا , اور بعد میں پولیس چیف نے ایسا بیان دیا کہ جو زخموں پر نمک پاشی کا مترادف تھا, کہ ایسے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں-

وہ اس بات پر غصہ تھے کہ پہلے تو حکومت خود عوام کی جان و مال کے حفاظت میں ناکام نظر آرہے ہیں اور جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو حکومتی نمائیندے اور آفسران اس کو چھوٹا واقعہ گردانتے ہیں-

قاری صاحب کا بیان کرتے وقت آنکھیں نم ہوئی - 

چہرے پر عجیب سی کرب اور بے بسی کے آثار تھے- 

کہہ رہا تھا کہ جب کسی آمیر آدمی, سیاستدان, بڑے آفسر , کسی گلوکار,فنکار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ان کو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے لیکن عام آدمی , سکول کالج یا مدرسے کے طلباء کے جان کی کوئی قیمت نہیں-

خطیب صاحب کا فرمانا تھا کہ ڈانس کلب , شراب خانے, سینیماء پر دھماکے نہیں ہوتے جبکہ مساجد اور مدارس میں دہشت گردی کی جاتی ہے-

  قاری صاحب بیان کے درمیان جذباتی ہوگئے تو رونے لگے اور آخر میں تمام حاظرین سے کہا کہ ہم بہت بے بس لوگ ہیں, حکومت کو عام آدمی, غریب عوام کی یا مساجد اور مدارس کے حفاظت کی کوئی بھی فکر نہیں اور نہ ہی مساجد اور مدارس میں پڑھنے والوں کے زندگیوں کو اہمیت دی جاتی ہے-

قاری صاحب نے جب حاظرین سے کہا کہ آو دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے کہ حکومت اور ریاست کے ہاں تو ہماری کوئی اہمیت نہیں لیکن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری حفاظت فرمائیں, وہ مساجد وہ مدارس کی حفاظت کریں, خدا عام آدمی کا حامی و ناصر ہو, 

ظالم کو نیست و نابود کرے, مسند اقتدار پر بیٹھے ان منافقین کو تباہ کریں کہ جو عوامی اور ملکی خدمت کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے- 

قاری صاحب نے دعا میں ان لوگوں کے بربادی کی دعا کی کہ جو اسلام اور جہاد کے نام پر بے گناہ لوگوں کو قتل کررہے ہیں-

دعا کے بعد خطیب صاحب نے بہت ہی جذباتی انداز میں حکومت اور ریاستی زمہ داران و سرپرستوں پر تنقید کی کہ اگر کوئی ملک پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہے تو کیوں نہ اس کے ساتھ تعلقات ختم کریں, بلکہ خطیب صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کا تعلق جس ملک سے بھی ہو ہم حکومت اور فوج کا ساتھ دیں گے, وہ اعلان جنگ کریں عوام ان کے شانہ بشانہ لڑیں گے-

اس نے کہا کہ پشاور مدرسہ دھماکے کو بھارت کے سر تھونپنے سے حکومت اور ریاست اپنی زمہ داری اور جواب دہی ہے مبر"ا نہیں ہوسکتی- اگر بھارت ملوث ہے اور آپ اس کو اپنا دشمن بھی کہتے ہئں تو آپ نے کھلبوشن کو ابھی تک پھانسی کیوں نہیں چڑھایا, ابھی نندن کو واپس کیوں بیجھا-

آخر میں حافظ مولانا محمد فاروق صاحب نے کہا کہ حکومت کو زبانی طور پر بھارت کو دشمن کہنے سے کچھ نہیں ھوگا- جبکہ تک ریاست اور حکومت لگائے جانے والے الزامات کے مطابق بھارت کے ساتھ عملی برتاوں بھی دیکھائے- 

قاری صاحب نے کہا ہم فوج کے ساتھ اگر وہ دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں سنجیدہ ہیں, اگر وہ واقعی ہندوستان کو دشمن مانتے ہیں تو اعلان کریں میں شانہ بشانہ لڑونگا-

حافظ صاحب نے کہا کہ اگر واقعی فوج ہماری محافظ ہے تو ہم ان کا ساتھ دیں گے-

یہ تو وہ باتیں تھی جو مولانا فاروق صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اور شکوہ بھی کیا کہ ملک میں عام آدمی کی زندگی ہو یا مساجد و مدارس اور طلباء کا تحفظ , حکومتی سطح پر کسی قسم کی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی-

جمعہ پڑھنے کے بعد جب میں مسجد سے نکل کر گھر جارہا تھا تو راستے میں سڑک پر مقامی تھانے کی پولیس موبائل گاڑی سامنے سے آتی ہوئی مسجد کی طرف جارہی تھی, قوی امکان یہی ہے کہ پولیس/لیویز اہکاران قاری صاحب کو تنبیہہ کرنے آئے ھونگے کہ حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید کرنے سے گریز کریں-

خیر یہ تو معلوم کرنے اور قاری صاحب سے دوبارہ ملنے پر پتہ چلے گا-

یقین جانیئے خطیب صاحب کی تقریر اگر میرے علاوہ کوئی بھی سن لیتا تو  میری ہی طرح اس کو بھی  اپنی بے بسی کا احساس ہوتا کہ سچ میں ہم کتنے بے بس اور دوسروں کے رحم کرم پر ہیں-

حکومت اور ریاست سے ہم یہ توقع ہی نہیں کرسکتے کہ ہم یہ کہے یا سوچیں اور مطمیئن رہے کہ ہاں ہمارے حفاظت پر بھی کوئی مامور ہے,

ہمیں کچھ ہوجائے تو ہمارا بھی کوئی پوچھنے والا, بدلہ لینے والا یا انصاف کے تقاضے پورے کرنے والا ہمارے پیچھے ہوگا-

حکومت اور ریاستی ادارے اسی روایتی بیانات کی حد تک محدود ہیں کہ ہمسایہ ممالک کا ہاتھ تھا, دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا-آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا-

آئیندہ نہیں ھوگا وغیرہ-

لیکن مملکت خداد کے ہر فرد کو اب یہ پتہ ہے کہ یہاں پر ایک واقعے ,ایک دھماکے ,ایک قتل عام سے دوسرے تک کے وقفے کو ہی امن کہا جاتا ہے-

اللہ ہم کا حامی و ناصر ہو-

آمین-

بشکریہ اردو کالمز