230

بلوچستان : نظام تعلیم کیساتھ بے رحمانہ سلوک کب تک؟

نظام مینگل اس وقت بلوچستان میں ڈائریکٹر سکولز کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پورے صوبے کے اسکولوں کے ڈائریکٹر کامطلب یہ کہ لگ بھگ بتیس اضلاع کے نصف تعلیمی ادارے کانظام جناب نظام مینگل صاحب کے رحم وکرم پرہے ۔جبکہ لطف کی بات یہ ہے کہ اس حساس نظام کے انتہائی ذمہ دار عہدے پر براجمان نظام مینگل صاحب کے ہاںدیانت، شفافیت اور اہلیت نام کی کوئی صفت سرے سے ہی نہیں ہے ۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کے نظام تعلیم کو قابل رشک بنانے کی دعوے دار صوبائی حکومت نے ایک ایسے شخص کو چوکیدار بنادیا ہے جو پہلے سے ہی دوسرو کی حق تلفی کاخوُگر رہاہے۔رواں سال تیرہ اگست کو نیب بلوچستان نے سابق ڈائریکٹر اسکولز محمد جان رضا سے بلوچستان میں غیر قانونی تقرریوں اور کروڑوں روپے کے غبن میں ملوث ٹولے جن کا ایک اہم کردار خود مینگل صاحب ہیں،کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔محمد جان رضا نے ڈائریکٹوریٹ میں نیب کے فوکل پرسن اور دیگر آفیسروں کے تعاون سے مطلوبہ ریکارڈنیب کو فراہم کرنے کیلئے تگ ودو شروع کی۔ظاہر بات ہے کہ اس سیکنڈل میں مینگل صاحب کا نام سر فہرست آنا تھا کیونکہ موصوف کے خلاف اس وقت بھی عدالتوں میں مختلف کیسز زیر سماعت ہیں اور کئی کیسز میں وہ ضمانت پر ہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ انتیس اگست کو تعلیم کی غم خوار سرکار نے مینگل صاحب کو آئینہ دکھانے کی بجائے الٹا اسے ڈائریکٹر اسکولز کا قلمدان سونپ دیا اور قربانی کا بکرا محمد جان رضا کوبنا کر انہیں فی الفور اس عہدے سے فارغ کردیا گیا۔چلیں حکومت نظام مینگل حکومت کا لاڈلا تھا اور یہ ان کے خلاف کاروائی کرنے سے ہچکچارہی تھی لیکن کم ازکم انہیں کچھ مہینوں کیلئے معطل کرکے گھر بھیجا سکتاتھالیکن بے حسی کی انتہا دیکھیے کہ انہیں پھر سے اس نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا سنہری موقع دے دیا گیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بارے میں ابھی چند دن پہلے ایڈوکیٹ عبدالحق بنگلزئی نے بلوچستان ہائی کورٹ کارخ کیا اور اس حوالے سے ایک پیٹیشن دائر کردی۔اس پیٹیشن میں بنگلزئی صاحب نے مینگل جیسے تعلیم دشمن آفیسروں کے خلاف عدالت سے فوری طور پر کاروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔ درخواست میں یہ حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ موصوف ڈائریکٹر کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ کا 211/280 رٹ پیٹیشن کا فیصلہ بھی آچکا ہے جس میں موصوف آفیسر کو محکمہ تعلیم کے کسی بھی انتظامی عہدے پر تعینات نہ کرنے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ عدالت کے اس حکم کا سادہ سا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ اس گلے سڑے نظام میں مینگل صاحب کے خلاف کاروائی کرنا امرِ محال ہے لیکن حکومت کم ازکم اس کومستقبل میں اہم انتظامی اور مالی ذمہ داری سونپنے سے گریز کرلیں۔ہائی کورٹ میں دائر کی گئی پیٹیشن میں درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی ہے کہ موصوف ڈائریکٹر فی الوقت گریڈ انیس میں نوکری کر رہا ہے جبکہ ان کے ماتحت تین آفیسرز سید انور شاہ، زاہدہ پروین اور خان محمد گریڈ بیس میں ہیں جو قانون کی سراسر خلاف ورزی اور تعلیم کے شعبے سے مذاق کے مترادف ہیــ‘‘ ۔کیاہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس پسماندہ صوبے میں تعلیمی نظام سے کھلواڑ کرنے والے صرف نظام مینگل نہیں ہیں بلکہ اس حمام میں وہ سب وزرائ،اعلیٰ آفسیرزاور اس سے نچلی سطح کے آفیسرز برہنہ ہیں جتنا ان کا بس چلتاہے، الا ماشا ء اللہ۔جو بھی حکومت آتی ہے وو روز اول سے تعلیمی اداروں میں نقل اور بوگس کاروائیوں کے خاتمے کا راگ الاپتی ہے اور حال یہ ہے کہ ہر سال بلوچستان بورڈ کے پورے امتحانی سنٹرز لاکھوں روپوں کے رشوت کے عوض بکتے ہیں۔ یہ امتحانی مراکزخریدنے والے امتحان میں بیس سے تیس ہزار روپے کے بدلے میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ڈپلیکیٹ امیدواروں کو بٹھاکرایک مہینے کے اندر لاکھوں روپے کماجاتے ہیں۔ یہی حالت بلوچستان یونیورسٹی کی ہے، جہاں تعلیم فراہم سے زیادہ مالی اور جنسی اسکینڈل سامنے آتے ہیں۔ حالیہ جام کمال حکومت معصوم ہی سہی، لیکن کوئی ہے جو تعلیم کے شعبے میںمجھے ماضی میں بننے والی حکومتوںکی چند قابل رشک کارناموں کا سدباب کرنے کی سعی کرے؟ ’’ خدا کی زمیں پرخدا کا نظام ‘‘ کا نعرہ لگانے والی جماعت جے یو آئی کے دور حکومت میں اُن نام نہاد ایماندار وزراء کے کرتوت کیسے یاد نہیں جنہوں نے اپنے اپنے محکمے میں میرٹ کو جوتے کی نوک پر رکھا تھااور تھوک کے حساب سے نوکریاں اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کیں۔بلکہ یہاں تک سننے کو ملا کہ اس جماعت کے دور میں کئی وزراء صاحباں نے نوکریوں کو مال غنیمت سمجھ کر لاکھوں روپوں کے عوض بیچ دیا تھا۔یہی پوزیشن پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دور حکومت میں رہی ۔ وزارت تعلیم کا قلم دان اس جماعت کے جس وزیر کے پاس تھا ،بے چارے سے پشتون بیلٹ کے کالجز میں ایف اے اور بی اے لیول میں پڑھائے جانے والے پشتو زبان کا نصاب تک تیار نہ ہوسکا اور تاحال طلباء خیبرپختونخوا بورڈ کی کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں۔کوئی ثابت کر ے کہ اس جماعت کے کسی وزیرنے پانچ سال دس اضلاع کے اسکولوں اور کالجز کا ایک بار بھی دورہ کیاہو؟مدنی ریاست کے نام لیوااگر ہمت رکھتے ہیں تواُن سے ایک مرتبہ پھر دست بستہ گزارش کی جاتی ہے کہ خدارا اس صوبے کے تعلیم جیسے حساس شعبے سے ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں ۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز