302

اوقاف کنٹرول پالیسی اور محکمہ اوقاف اسلام آباد کے  زمینی حقائق

ملکی اداروں میں بہتری کے لئے یا معاشرہ میں پائی جانے والی خرابیوں کے سدھار کے لئے ریاستی قانون سازی یا پالیسی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کے مساجد مدارس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے انتظامی معاملات میں بھی بہتری کی بہت گنجائش ہے بلکہ بہت زیادہ ضرورت ہے اور وہاں پر موجود خدمات سر انجام دینے والے اشخاص کی علمی اور  فکری اصلاحات کی بھی  ضرورت ہے انکی علمی اور روحانی بڑھوتری کی بھی ضرورت ہے لیکن وہ کرکون سکتا ہے یہ الگ بحث ہے 

پرائیویٹ سیکٹر کی مساجد میں اور مدارس میں خدمات سر انجام دینے والے خدام مؤذنین ائمہ خطبا اور مدرسین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ان کے مشاہرے انتہائی کم ہیں جسکی وجہ سے وہ مقتدا ہونے کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بالخصوص مدارس کے مدرسین کے ساتھ عموما مہتممین ناروا سلوک کرتے ہیں انکی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں جس پر میں بارہا تفصیل سے لکھ چکا ہوں مدارس دینیہ کے جو بورڈز ہیں ان سے بھی درخواست کرچکا ہوں لیکن تاحال اس پر خاطر خواہ شنوائی نہیں ہوسکی یہ تو گراؤنڈ رائیلٹی ہے حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے

اب آتے ہیں ذرا اس بل کی جانب جو گذشتہ دنوں  سینٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس کیا گیا جس کے مطابق اسلام آباد میں موجود وقف شدہ املاک چاہے وہ مساجد مدارس مزارات یاکسی بھی قسم کے فلاحی ادارے یا پروجیکٹز ہیں انکو ریاستی طے شدہ ضابطہ کے مطابق چیف کمشنر اسلام آباد کے انڈر کردیا جائے گا 

چیف کمشنر اسلام آباد ناظم اعلیٰ اوراسکے ماتحت سٹاف کا تقرر کرکے اوقاف املاک کو اپنے قبضے میں لیں گے اور اسکے  نظم ونسق چلائیں گے 

اس بل کے اوائل میں کہاگیا چونکہ اسلام آباد دارالخلافہ ہے اس لئے اسمیں اوقاف املاک کا انتظام وانصرام بھی مثالی ہونا چاہیے جس کے لئے ان اقدامات کو ناگزیر قرار دیا گیا بہت اچھی بات ہے نیکی بھی اور پوچھ کر بڑھے چلو بڑھے چلو اقبال کے شاہینو

لیکن اب میں آپ کو محکمہ اوقاف اسلام آباد کے بارے میں حیرت انگیز معلومات بلکہ انکے سیاہ کردار سے آگاہی دیتا ہوں جسکی تفصیل کچھ یوں ہے محکمہ اوقاف اسلام آباد پہلے سے ایک ڈائریکٹریٹ کی شکل میں موجود ہے جس کے دو ڈیپارٹمنٹ ہیں 

نمبر ایک۔ اوقاف مساجد جسکے زیر انتظام کل ملا کر سو سے زائد مساجد ہیں 

نمبر دو۔ اوقاف شرائن جسکے زیر انتظام اسلام آباد میں موجود مزارات ہیں اور مین مزار بری امام ہی ہے 

یہ دونوں ڈیپارٹمنٹ محکمہ اوقاف ڈائریکٹریٹ کے انڈر ہیں اوقاف ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر کا ایڈیشنل چارج  ڈی سی اسلام آباد کے پاس ہوتا ہے اور ڈی سی اسلام آباد کے اوپر فل اتھارٹی چیف کمشنر اسلام آباد ہوتے ہیں تو گویا کہ محکمہ اوقاف اسلام آباد پہلے سے چیف کمشنر اسلام آباد کے انڈر ہے  تقریبا تین سال سے حمزہ شفقات صاحب نے محکمہ اوقاف کو ڈائریکٹر کا شرف بخش رکھا ہے پاکستان کے پاپولر  ڈی سی ہیں ابھی حال ہی میں انکو ایوان صدر نے گرانقدر خدمات پر خصوصی ایوارڈ بھی دیا گیا

پھر ڈائریکٹر کے انڈر ڈپٹی ڈائریکٹر اور دونوں ڈیپارٹمنٹ کے لئے الگ الگ ایڈمن آفیسر ہوتے ہیں 

عرصہ 12 سال سے اسمیں بھرتیاں نہیں ہوئی اگر چند ایک ہوئی تو وہ غیر قانونی چور راستہ سے ہوئی جسمیں بعض لوگ نان کوالیفائیڈ بھی تعینات کئے گئے انکی ڈگری جعلی ثابت ہونے کے باوجود ان کو بحال رکھا گیا جسکے شواہد مہیا کئے جاسکتے ہیں بلکہ گذشتہ سال محکمہ اوقاف اسلام آباد کے ایک خطیب کی جعلی ڈگری کا ذکر بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے جسکا علم ڈی سی صاحب کو ہے انہوں نے ٹویٹ بھی کیا تھا 

اب محکمہ اوقاف اسلام آباد کی حالیہ حالت زار سے مختصر طور پر آگاہ کروں تو آپ ششدر رہ جائیں گے کہ کس طور پر اس محکمہ کو کھلواڑ بنارکھا ہے اور کوئی بھی متعلقہ افسر اسمیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا 

ڈپٹی ڈائریکٹر اوقاف ہی اکلوتا  پرمنٹ اعلی افسر اس ڈائریکٹریٹ کو نصیب ہوتا ہے لیکن اس کی توجہ دوفیصد بھی اپنے پرمنٹ فرائض منصبی پر نہیں ہوتی بلکہ وہ ایڈیشنل چارج پر کھپ رہا ہوتا ہے کھبی پولیو کی ویکسین اور کھبی ڈینگی اور کھبی کرونا پھر ڈی ایچ او کے فرائض بھی 

جب ان سے محکمہ اوقاف کی بات کی جائے تو فورا ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں 

ایک اور عجوبہ بتلاؤں کہ محکمہ اوقاف اسلام آباد کا آفس ابھی آئی ٹین میں ہے لیکن وہاں پر ڈپٹی ڈائریکٹر کے لئے آفس ہی نہیں رکھا گیا ہے وہ ڈی سی آفس جی الیون میں ہی جلوہ گر ہوتے ہیں  میری معلومات کے مطابق موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر اوقاف ایک دفعہ بھی اوقاف آفس آئی ٹین میں  تشریف نہیں لے گئے حالانکہ ایک عرصہ سے اس عہدہ پر فائز ہیں اس سے اس محکمہ میں حکومت اور حکومتی افسران کی سنجیدگی معلوم ہوجاتی ہے 

اسوقت محکمہ اوقاف اسلام آباد میں سو کے قریب مؤذنین اور خطبا کی پوسٹیں خالی ہیں جن کا اشتہار 2016 میں دیا گیا پھر کچھ لوگوں نے اس پر سٹے لیا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پٹیشنرز کی چند منشن پوسٹوں کے علاوہ ضابطہ کے مطابق تعیناتی کرنے کی ڈائریکشن دی جسکی کاپی میرے پاس ہے 

لیکن ہمارے محکمہ اوقاف کے باکمال لوگوں کے لاجواب کارناموں کی بدولت پوسٹوں کو مشتھر کرنے کے بعد چارسال گزرنے کو ہیں لیکن انہوں نے ہائی کورٹ کی ڈائریکشن کو نہیں مانا جو سیدھا سیدھا توہین عدالت ہے 

پھر انکو یاددہانی کے میں تین درخواستیں تحریری طور پر ڈی سی اسلام آباد کو دے چکا ہوں جسکا ریکارڈ میرے پاس ہے 

جب انہوں نے داد رسی نہیں کی تو میں نے وزیر داخلہ کو اپروچ کیا اور انکو تحریری درخواست دی جس پر انہوں نے بھی انکو ڈائریکشن دی لیکن یہ پھر بھی ہاتھی کے کان میں سوئے رہے 

پھر میں نے وزیر اعظم پاکستان کے علم میں یہ معاملہ تحریری طور پر لایا جس پر وزیراعظم کی جانب سے بھی انکو ڈائریکشن جاری ہوئی اس کو بھی انہوں نے قابل عمل نہ سمجھا اسکے بعد وفاقی محتسب میں میں نے پٹیشن فائل کی تو وفاقی محتسب نے بھی انکو بذریعہ چیف کمیشنر ڈائریکشن دی اسکو بھی ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن انکے سر پر جوں بھی نہ رینگی 

 

میں حیران ہوں کہ چیف کمشنر اور ڈی سی اسلام آباد کے انڈر اسلام آباد کی کل ملا کر سو کے قریب مساجد ہیں یہ ان سے نہیں چل رہی اگر ساری مساجد اور مدارس انکے انڈر میں ہوں گے تو یہ کیا گل کھلائیں گے ۔۔۔؟

اسکو یہ کیسے چلائیں گے اسکی مزید حیرت انگیز صورت حال اور اس بل کی شقوں پر تبصرہ ان شاءاللہ بشرط زندگی  اگلی قسط میں کروں گا

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

بشکریہ اردو کالمز