509

مولنا فضل الرحمن کا میڈیا کا سامنا کرنے کا منفرد انداز

میڈیا ڈائس پر آتے ہی مولنا نے پہلا چٹکلا چھوڑا کہ قہوہ پیا حلوہ کھایا چوہدری شجاعت صاحب کی عیادت کی اور بس یہ کہہ کر مولنا نے ماحول کو خوشگوار بھی بنا دیا اور میڈیا نمائندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی لیکن ساتھ میڈیا نمائندوں کے تجسس کو مزید بڑھا دیا کہ آخری ایسا کچھ خاص تو ہے جسے مولنا چھپا رہے ہیں صحافیوں نے سوالات کے ذریعہ اسکو اگلوانے کی کوشش کی کیونکہ بطور پروفیشنل صحافت اپنائے میڈیا نمائندے تو خبر کی تلاش میں ہوتے ہیں کھانے سے گپ شپ سے انکو رام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میڈیا نمائندوں کی بیک پر انکے میڈیا گروپ بس ایک ہی ڈیمانڈ رکھ کر آفسز سے  انکو بیٹس پر بھیجتے ہیں کہ سکرین پر ہاتھوں ہاتھ بکنے والا خبر نما چورن تلاش کرکے لاؤ 

اسی چورن کی تلاش میں وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں مچھروں کو برداشت کرتے ہیں گرمی سردی جھیلتے ہیں 

مولنا فضل الرحمان کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنکو سیاسی حلقے ہوں یا ریاستی ادارے یا پھر صحافتی حلقے انہیں  انتہائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں  اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ سلیم صافی اور حامد میر جیسے سنیئر ترین جرنلسٹ بار ہا یہ برملا کہتے سنیں گے ہیں کہ مولنا فضل الرحمان سے خبر ملے یانہ ملے سیکھنے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے 

 اس دور کے سیاسی مقتدا کے لئے میڈیا کا اچھے اور سلجھے ہوئے انداز میں سامنا کرنے کا گر بنیادی کردار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسکو یہ نہیں آتا وہ ملکی سیاست میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکتا عموما سیاسی قائدین کے لئے وہ مرحلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے جب وہ میڈیا کو کچھ بھی نہ کہنا چاہتے ہوں اور نوکننٹس پر گزارہ کرنا چاہتے ہوں لیکن میڈیا کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتا ہو تو ایسے وقت میں یا تو سیاسی قائدین کو ناخوشگوار رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا میڈیا کو سخت رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جسکا دونوں اپنے اپنے وقت پر حساب چکتا کرتے ہیں مولنا فضل الرحمان نوکمنٹس کا سہارا بہت کم بلکہ شادر نادر ہی لیتے ہیں 

مولنا فضل الرحمان کا شمار ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو سیاسی طور پر مشکل ترین اور حساس ترین موضوع پر  بھی بڑے فصیحانہ اور بلیغانہ انداز میں سب کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اور پتلی گلی سے نکل بھی جاتے ہیں

بعض حساس ترین موضوعات پر مولنا نمکین جملوں اور مزاہیہ کہاتوں سے اس مسئلہ کی حساسیت کو بھی کم کردیتے ہیں اور اپنا بھرپور موقف بھی دے دیتے ہیں جیسے 

2018 کے الیکشن کے نتائج پر مولنا کو ریاستی اداروں سے سخت گلہ تھا جسکو مولنا نے نکے دا ابا کے مشہور لطیفہ سے تعبیر کرکے ایک نیالطیفہ بنا ڈالا جو ہر زبان زدعام رہا

 

آج  اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر بھی مولنا نے ایسا ہی کیا میڈیا کو بھی ہینڈل کرگے اور بتایا بھی کچھ نہیں اسی تجسس پر مولنا خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل کریں گے 

لیکن اس موقعہ پر مولنا فضل الرحمان نے حالیہ صحابہ کرام کی گستاخیوں پر ریاستی کردار پر سوال اٹھایا اور انکی خاموشی کو انکے مشکوک کردار کی دلیل قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کسی گستاخانہ عمل کے ردعمل میں اگر کوئی شہری  انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اس ردعمل پر تو سخت قانونی ایکشن ہوتا ہے لیکن جس عمل کیوجہ سے ردعمل ہوا اس عمل پر قانون نافذ کرنے ادارے وہ پھرتی نہیں دکھاتے 

 

آج میڈیا نمائندوں نے مولنا سے تین اہم سوالات کئے لیکن مولنا نے تینوں سوالات کے جوابات کو گول کردیاسوال کردیا

پہلا سوال یہ تھا کہ چوہدری برادران سے ماضی قریب میں آزادی مارچ کے بعد ہونے والے شکوے شکایات پر چوہدری صاحب سے کیا بات ہوئی 

مولنا نے چوہدری صاحب کی بیماری کیوجہ سے اس طرح کے سیاسی ایشوز پر بات نہ کرنے کا گول مول جواب دیا 

دوسرا سوال یہ تھا کہ اپوزیشن کو اختیار کرنے کے لئے وہ ٹھوس پالیسی کیا ہے جو آپ کو قابل قبول ہو

مولنا نے اسکا یہ جواب دیا کہ انتظار کریں اے پی سی ہونے دیں وہ پالیسی میں اے پی سی میں بتاؤں گا

تیسرا سوال یہ تھا کہ حالیہ موٹروے پر ایک خاتون سے زیادتی ہونے کے دلخراش  واقعہ کے  بعد ایک رپورٹ کے مطابق 93فیصد لوگ ایسے واقعات پر سرعام پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ سرعام پھانسی پر قانون سازی کے حوالہ سے کیا کہیں گے 

مولنا نے کہا کہ حکومت ایگزیکٹو پاور سے سرعام پھانسی دے سکتی ہے نواز شریف دور میں دی بھی گئی ہے حکومت ایسا کرے یہ کہہ کرمولنا نے جان چھڑا دی اور سرعام پھانسی کے لئے کسی قانون سازی کی حمایت کی حامی نہیں بھری کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ہوائی تخت مغربی ہواؤں پر پرواز کرتا ہے اور مغرب سرعام پھانسی کے حق میں نہیں تو مولنا اپنی سیاسی زندگی کو اقتدار سے مزید دور کرنے کا  کوئی رسک نہیں لینا چاہتے  اس لئے ریاستی ایگزیکٹو پاور کی بتی کے پیچھے لگا کر صحافتی نمائندہ کو خاموش کردیا 

مولنا جب صحافیوں کے سوالات کا مزید جواب نہ دینا چاہیں تو بڑے خوبصورت انداز میں سوال وجواب کے سیشن کو لپیٹ لیتے ہیں ایسا ہی مولنا نے چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر کیا کہ صحافی نے پوچھا کے پی ٹی آئی پولیس ریفارمز کی دعوی دار تھی حالانکہ پنجاب میں بیڈ گورننس کی حد کر ہوگئی  کہ پولیس کا ماتحت افسر افسران بالا کا حکم نہیں مانتا اشارہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے قضیہ کیطرف تھا تو مولنا نے پنجابی لہجے میں کہا پی ٹی آئی ریفارمز کو رہنے دے بس بندہ دے پتر بن جاؤ 

یہ جملہ گلابی پنجابی میں ایسے دلچسپ انداز میں کہا کہ صحافی  قہقہے  مارنے میں مصروف ہوگے اور انکو اپنے سوال ہی بھول گے مولنا یہ گے اور وہ گے 

بہرحال مولنا میڈیا کو ڈیل کرنے کا بھرپور فن جانتے ہیں جسمیں کوئی دورائے نہیں ہیں اللہ تعالی مولنا کے اس فن کو دین اسلام کی اشاعت کے لئے قبول کرے اور اللہ تعالی  ہم سب کا حامی وناصر ہو

بشکریہ اردو کالمز