میڈیا ڈائس پر آتے ہی مولنا نے پہلا چٹکلا چھوڑا کہ قہوہ پیا حلوہ کھایا چوہدری شجاعت صاحب کی عیادت کی اور بس یہ کہہ کر مولنا نے ماحول کو خوشگوار بھی بنا دیا اور میڈیا نمائندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی لیکن ساتھ میڈیا نمائندوں کے تجسس کو مزید بڑھا دیا کہ آخری ایسا کچھ خاص تو ہے جسے مولنا چھپا رہے ہیں صحافیوں نے سوالات کے ذریعہ اسکو اگلوانے کی کوشش کی کیونکہ بطور پروفیشنل صحافت اپنائے میڈیا نمائندے تو خبر کی تلاش میں ہوتے ہیں کھانے سے گپ شپ سے انکو رام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میڈیا نمائندوں کی بیک پر انکے میڈیا گروپ بس ایک ہی ڈیمانڈ رکھ کر آفسز سے انکو بیٹس پر بھیجتے ہیں کہ سکرین پر ہاتھوں ہاتھ بکنے والا خبر نما چورن تلاش کرکے لاؤ
اسی چورن کی تلاش میں وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں مچھروں کو برداشت کرتے ہیں گرمی سردی جھیلتے ہیں
مولنا فضل الرحمان کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنکو سیاسی حلقے ہوں یا ریاستی ادارے یا پھر صحافتی حلقے انہیں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ سلیم صافی اور حامد میر جیسے سنیئر ترین جرنلسٹ بار ہا یہ برملا کہتے سنیں گے ہیں کہ مولنا فضل الرحمان سے خبر ملے یانہ ملے سیکھنے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے
اس دور کے سیاسی مقتدا کے لئے میڈیا کا اچھے اور سلجھے ہوئے انداز میں سامنا کرنے کا گر بنیادی کردار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسکو یہ نہیں آتا وہ ملکی سیاست میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکتا عموما سیاسی قائدین کے لئے وہ مرحلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے جب وہ میڈیا کو کچھ بھی نہ کہنا چاہتے ہوں اور نوکننٹس پر گزارہ کرنا چاہتے ہوں لیکن میڈیا کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتا ہو تو ایسے وقت میں یا تو سیاسی قائدین کو ناخوشگوار رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا میڈیا کو سخت رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جسکا دونوں اپنے اپنے وقت پر حساب چکتا کرتے ہیں مولنا فضل الرحمان نوکمنٹس کا سہارا بہت کم بلکہ شادر نادر ہی لیتے ہیں
مولنا فضل الرحمان کا شمار ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو سیاسی طور پر مشکل ترین اور حساس ترین موضوع پر بھی بڑے فصیحانہ اور بلیغانہ انداز میں سب کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اور پتلی گلی سے نکل بھی جاتے ہیں
بعض حساس ترین موضوعات پر مولنا نمکین جملوں اور مزاہیہ کہاتوں سے اس مسئلہ کی حساسیت کو بھی کم کردیتے ہیں اور اپنا بھرپور موقف بھی دے دیتے ہیں جیسے
2018 کے الیکشن کے نتائج پر مولنا کو ریاستی اداروں سے سخت گلہ تھا جسکو مولنا نے نکے دا ابا کے مشہور لطیفہ سے تعبیر کرکے ایک نیالطیفہ بنا ڈالا جو ہر زبان زدعام رہا
آج اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر بھی مولنا نے ایسا ہی کیا میڈیا کو بھی ہینڈل کرگے اور بتایا بھی کچھ نہیں اسی تجسس پر مولنا خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل کریں گے
لیکن اس موقعہ پر مولنا فضل الرحمان نے حالیہ صحابہ کرام کی گستاخیوں پر ریاستی کردار پر سوال اٹھایا اور انکی خاموشی کو انکے مشکوک کردار کی دلیل قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کسی گستاخانہ عمل کے ردعمل میں اگر کوئی شہری انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اس ردعمل پر تو سخت قانونی ایکشن ہوتا ہے لیکن جس عمل کیوجہ سے ردعمل ہوا اس عمل پر قانون نافذ کرنے ادارے وہ پھرتی نہیں دکھاتے
آج میڈیا نمائندوں نے مولنا سے تین اہم سوالات کئے لیکن مولنا نے تینوں سوالات کے جوابات کو گول کردیاسوال کردیا
پہلا سوال یہ تھا کہ چوہدری برادران سے ماضی قریب میں آزادی مارچ کے بعد ہونے والے شکوے شکایات پر چوہدری صاحب سے کیا بات ہوئی
مولنا نے چوہدری صاحب کی بیماری کیوجہ سے اس طرح کے سیاسی ایشوز پر بات نہ کرنے کا گول مول جواب دیا
دوسرا سوال یہ تھا کہ اپوزیشن کو اختیار کرنے کے لئے وہ ٹھوس پالیسی کیا ہے جو آپ کو قابل قبول ہو
مولنا نے اسکا یہ جواب دیا کہ انتظار کریں اے پی سی ہونے دیں وہ پالیسی میں اے پی سی میں بتاؤں گا
تیسرا سوال یہ تھا کہ حالیہ موٹروے پر ایک خاتون سے زیادتی ہونے کے دلخراش واقعہ کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق 93فیصد لوگ ایسے واقعات پر سرعام پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ سرعام پھانسی پر قانون سازی کے حوالہ سے کیا کہیں گے
مولنا نے کہا کہ حکومت ایگزیکٹو پاور سے سرعام پھانسی دے سکتی ہے نواز شریف دور میں دی بھی گئی ہے حکومت ایسا کرے یہ کہہ کرمولنا نے جان چھڑا دی اور سرعام پھانسی کے لئے کسی قانون سازی کی حمایت کی حامی نہیں بھری کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ہوائی تخت مغربی ہواؤں پر پرواز کرتا ہے اور مغرب سرعام پھانسی کے حق میں نہیں تو مولنا اپنی سیاسی زندگی کو اقتدار سے مزید دور کرنے کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتے اس لئے ریاستی ایگزیکٹو پاور کی بتی کے پیچھے لگا کر صحافتی نمائندہ کو خاموش کردیا
مولنا جب صحافیوں کے سوالات کا مزید جواب نہ دینا چاہیں تو بڑے خوبصورت انداز میں سوال وجواب کے سیشن کو لپیٹ لیتے ہیں ایسا ہی مولنا نے چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر کیا کہ صحافی نے پوچھا کے پی ٹی آئی پولیس ریفارمز کی دعوی دار تھی حالانکہ پنجاب میں بیڈ گورننس کی حد کر ہوگئی کہ پولیس کا ماتحت افسر افسران بالا کا حکم نہیں مانتا اشارہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے قضیہ کیطرف تھا تو مولنا نے پنجابی لہجے میں کہا پی ٹی آئی ریفارمز کو رہنے دے بس بندہ دے پتر بن جاؤ
یہ جملہ گلابی پنجابی میں ایسے دلچسپ انداز میں کہا کہ صحافی قہقہے مارنے میں مصروف ہوگے اور انکو اپنے سوال ہی بھول گے مولنا یہ گے اور وہ گے
بہرحال مولنا میڈیا کو ڈیل کرنے کا بھرپور فن جانتے ہیں جسمیں کوئی دورائے نہیں ہیں اللہ تعالی مولنا کے اس فن کو دین اسلام کی اشاعت کے لئے قبول کرے اور اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو