پاکستان کے سیاسی تناظر میں یہ ایک حقیقت ہے کہ مولنا فضل الرحمن کا سیاسی حجم جمعیت علما اسلام کے سیاسی حجم سے زیادہ ہے پاکستان کے اندر جمعیت علما اسلام دیوبند مکتب فکر کا
سیاسی پلیٹ فارم سمجھا جاتاہے جمعیت علما اسلام پاکستان ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اورشیخ الہند رحمہ اللّٰہ کے نظریات و افکار کے علمبردار ہونے کی دعوی دار ہے
جو لوگ تاریخ سے ناآشنا ہیں وہ جمعیت علما اسلام کو ایک مکتب فکر سے جوڑتے ہیں اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے روحانی فرزند اسکے باغباں اور روح رواں رہے ہیں لیکن تاریخ کے آئینہ میں جمعیت علما ہند ایک مکتب فکر کے بجائے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا نمائندہ سیاسی پلیٹ فارم تھا اور اب بھی ہے
جمعیت علماء ہند کا قیام 19نومبر 1919 کو عمل میں لانے والوں میں شیخ الاسلام مولنا حسین احمد مدنی مولنا احمد سعید دہلوی مفتی اعظم مفتی محمدکفایت اللہ دہلوی مفتی محمد نعیم لدھیانوی مولنا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہم اللہ کے نام سہرفہرست ہیں ان لوگوں نے انگریز کو برصغیر سے بھگانے میں امتیازی کردار ادا کیااور مسلمانوں کی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا جمعیت علما ہند کا کانگریس سے سیاسی اشتراک اسی تناظر میں تھا
1885 سے قائم سیاسی پلیٹ فارم انڈین نیشنل کانگریس جو تحریک آزادی ہند کا مرکزی کردار ہے اسمیں مسلمانوں کے نمائندہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے جمعیت علما ہند کو شامل کیا گیا میرا مقصد اس پس منظر سے یہ ثابت کرنا ہے کہ جمعیت علما ہند مسلمانوں کا نمائندہ سیاسی پلیٹ فارم تھا محض ایک مکتب فکر کا نمائندہ سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا
1945 سے تحریک پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے جس جمعیت علما اسلام کے پلیٹ فارم سے کردار کیا تھا وہی جمعیت علما اسلام پاکستان کے نام سے اب مختلف گروپوں میں موجود ہیں جسمیں جمعیت ف س ق ن وغیرہ لیکن جمعیت علما اسلام ف ہی عوامی پذیرائی برقرار رکھ سکی ہے بقیہ گروپوں کا حجم وقت کے گزرنے اور شخصیات کے گزرنے کے بعد کم ہوتے ہوتے آثار قدیمہ کا ورثہ بن چکا ہے
میں اگرچہ حضرت مدنی کا عقیدت مند ہوں انکو ماضی کی الوالعزم شخصیات کے ماتھے کا جھومر سمجھتا ہوں لیکن
اس موقعہ پر یہ شکوہ بھی بجاطور پر کیا جاسکتا ہے مولنا فضل الرحمن دامت برکاتہم سمیت جمعیتی قائدین گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنے آپ کو شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا نظریاتی وارث قرار دیتے ہیں
جس پر مجھے اعتراض نہیں لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کا نام کہیں حاشیہ میں بھی نہیں ملتا حالانکہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے بانی علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ہیں اس سے دنیا کا کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا
کل پشاور کے فقید المثال اجتماع میں بیسیوں دفعہ حضرت مدنی کا نام لیا گیا سینکڑوں دفعہ لیا جائے وہ مشک امبر ہے اس کی مہک نظریات کو جلا بخشتی ہے لیکن دوسری جانب حضرت عثمانی رحمہ اللہ کو یوں نظر انداز کردینا کہ ان کے نام نامی کے ذکر سے دلوں پر بوجھ محسوس کیا جائے یہ وفا شعاروں کا شعار نہیں ہے خیر میں اسکو موضوع بحث نہیں بنانا چاہتا
کل مورخہ 7 ستمبر 2020 پشاور میں جمعیت علما اسلام کے زیر اہتمام یوم الفتح کے عنوان سے معنون عظیم الشان اجتماع میں قائد جمعیت نے اپنے خطاب میں موجود حکومت پر شدید نکتہ چینی کی اور انکو یہودی ایجنٹی کا کردار قرار دیا عالم اداروں اور عالمی طاقتوں کے سامنے موجودہ حکومت کو کھلونا قرار دیا
اور خبردار کیا کہ اگر عالمی اداروں اور طاقتوں کے دباؤ پر ناموس رسالت ایکٹ کو چھیڑا گیا تو ہم اپناوہ کردار ادا کریں گے جسکو تاقیامت یاد رکھا جائے گا
اس خطاب میں قائد جمعیت نے صحابہ کرام کی حالیہ گستاخیوں کے خلاف شدید ردعمل دیا لیکن مولنا نے گستاخوں کو کلین چٹ دینی کی بھی نادانستہ کوشش کی وہ اس طرح کہ انہوں ان گستاخیوں کو کسی مسلک سے جوڑنے کے بجائے اسکو مقتدر قوتوں کی کارستانی قرار دیکر اپنی توپوں کا رخ ان مقتدر قوتوں کی طرف کیا اور ان گستاخوں کو کھلونا اور مجبور محض قرار دیا
حالانکہ حقائق کی دنیا میں ان گستاخوں کی پشت پر پورا مسلک اور پڑوسی ملک ایران کھڑا اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے مجلس عمل سندھ کا جنرل سیکرٹری ناظر عباس بے بانگ دھل علی الاعلان ان گستاخوں کی حمایت کرتے ہوئے دھرنوں کا اعلان کرتے ہوئے پوری دنیا دیکھ رہی ہے
لیکن قائد جمعیت ان کو مجبور محض اور اس مذموم حرکت کو صرف مقتدر قوتوں کی کارستانی قرار دے رہے ہیں یہ میری سمجھ سے بالا ہے
بالفرض اگر مان لیں کہ اہل تشیع مکتب فکر کا اس سے تعلق نہیں یہ مقتدر حلقوں کا کیا دھرا ہے توپھر میرا سوال ہے کہ ان گستاخوں کی پشت پناہی اہل تشیع مکتب فکر کیوں کررہا ہے جس مجلس عمل کے صدر مولنا فضل الرحمان ہیں اسی مجلس عمل کا نائب صدر ساجد نقوی اور مجلس عمل سندھ کا جنرل سیکرٹری ناظر عباس ان گستاخوں کی پشت پناہی کیوں کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
دوسرا سوال یہ ہےکہ بقول مولنا فضل الرحمان جیسے عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ٫کھلونا اور مہرہ ہے تو مولنا پھر عمران خان اور اسکی حکومت سے کیوں لڑتے ہیں اسکو پھر یہ کہنا چاہیے کہ عمران تو بیچارہ حاجی نمازی ہے بدمعاش اصل عالمی سامراج طاقتیں ہیں لہذا ہم اپنی توپوں کا رخ اسرائیل امریکہ اور عالمی اداروں کیطرف کریں گے اس مجبور محض سے آپ کا کیا لینا دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
لیکن مولنا عمران پر گرج گرج کر برستے ہیں اس کی حکومتی پالیسیوں کو زہر قاتل قرار دیکر اسمبلی میں چوکوں چوراہوں میں موثر تحریک کیوں برپا کئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر آپ یہ کہیں کہ ان ایجنٹوں کا راستہ روکنے کے لئے یہ کرنا پڑتا ہے تاکہ انکی عوامی حمایت کو کم کیا جائے انکو عوام میں ایکسپوز کیا جائے ۔۔۔۔
تو بس ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کارستانی مقتدر قوتوں کی ہے یا اسرائیلی گماشتوں کی ہے لیکن استعمال تو یہی ہورہے ہیں ان قوتوں کو بے نقاب کرنا الگ کام ہے اور ان قوتوں کے آلہ کاروں کو بے نقاب کرنا الگ کام ہے یہ دونوں کرنے کے کام ہیں اس لئے صحابہ کرام کی اعلانیہ گستاخیوں پر یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم اسکی مذمت کرتے ہیں اور یہ مقتدر قوتوں کی کارستانی ہے آپ کے سیاسی اور مذہبی قائدانہ تشخص کیوجہ سے آپ پر دو کام فرض ہیں ایک ان مقتدر قوتوں کو بے نقاب کرنا دوسرا ان قوتوں کے آلہ کاروں کو بے نقاب کرنا اور انکو قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے ملک میں موجود ناموس صحابہ تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تاریخی کردار ادا کرنا ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں طاغوت اور انکے آلہ کاروں کے خلاف موثر جدجہد کرنی کی توفیق عطا فرمائے اور انکی پہچان کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین