کراچی ائیرپورٹ پر اسلام آ باد جانے کے لئے ائیر بلیو کی مقررہ فلائیٹ کے انتظارمیں انتظار گاہ میں بیٹھا تھا کہ لاہور جانے والی ائیر بلیو کی فلائیٹ کا بلوچستان سے تعلق رکھنے والےایک مسافر ان سے گم ہوگیا ائیر بلیو کا عملہ اس کو بار بار اعلان کرکے آنے کی درخواست کررہا تھا کیونکہ وہ بورڈنگ کارڈ سب سے پہلے لے چکا تھا لیکن جہاز میں نہیں آ رہا سب مسافر جہاز میں بیٹھ چکے تھے بالآخر فائنل اعلان کیا گیا کہ اگر دومنٹ تک موصوف تشریف نہ لائے تو ہم جہاز کا دروازہ بند کردیں گے ائیر بلیو کےایک بیدار مغز اور موقع شناس ملازم نے انتظار گاہ میں بنائی گئی مسجد کو چیک کیا توموصوف کو وہاں سے سوتے ہوئے برآمد کرکے درپیش مشکل کوحل کردیا انتظار گاہ میں موجود مسافر اس لطیفہ سے ابھی محظوظ ہورہےہی تھے کہ
انگلش لباس میں ملبوس بظاہر پڑھا لکھا معلوم ہونے والا ایک شخص بھاگتا ہوا ہمارے سامنے سے تیزی سے گزرا اورکاونٹر پر مامور عملہ کو ٹکٹ چیک کرائے بغیر جہاز کی طرف جانے والے غالبا گیٹ نمبر 17سے داخل ہوگیااب وہ مسافر آ گے آ گے اور متعلقہ سٹاف پیچھے پیچھے تھوڑی دیر بعد وہ شخص سٹاف کے کہنے پر واپس ویٹنگ ہال کی طرف آیا تو ہال طنزیہ قہقہوں سے گونج اٹھا جس پر اس شخص کے چہرے کےرنگ بڑی تیزی سے بدل رہے تھے اب وہ ہال کے بیچ میں کھڑے ہوکر مصنوعی مسکراہٹ سے اپنی خفت کو مٹانے کی کوشش کررہاتھااتنے میں ہال سے ایک لڑکی کی جانب سے کساگیا بلکہ چلایا گیا یہ طنزیہ جملہ گونجا کہ پینڈو پھڑیا گیا
اس پر وہ شخص مزید جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر اپنے دائیں بائیں متلاشی نگاہوں سے کچھ تلاش کررہا تھا
مجھے لگا کہ شائد وہ ایسی نشست کی تلاش میں ہے جس کے آ س پاس کوئی نہ ہو تاکہ کوئی مزید اسکو نہ چھیڑے یا اسکو چھیڑنے کی آواز کم ازکم نہ آئے اسکے چہرہ پر چھائی اداسی سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ موصوف کسی پریشانی سے دوچار ہیں میں نے اپنا ہاتھ ہلا کر اس شخص کو متوجہ کیا اور اپنے ساتھ والی خالی نشست پر تشریف رکھنے کی سنجیدہ آ فر کی تو بڑی احسان مندی سے اس شخص نے میری آ فر کو قبول کیا اور فورا میری طرف بڑھا جیسے وہ مجھے ہی تلاش کررہا ہو جوں ہی وہ میرے پاس آ کر بیٹھا تو گرم موسم کے مطابق میں نے فورا ٹھنڈا ٹھار رانی کا ٹن اکراما پیش کیا جس کو موصوف نے بڑے احسان مندانہ انداز سے قبول کیا جب وہ پی چکے اور پانچ سات منٹ گزر چکے ہال کا ماحول بھی نارمل ہوچکا ان پر فوکس کی گئی طنزیہ نظروں نے بھی پیچھا چھوڑ دیا تو موصوف نے خود ہی بتلایا کہ میں پاکستانی ہوں لیکن امریکہ واشنگٹن میں رہتا ہوں عمرے کےلئے سعودی عرب گیا تھا عمرہ کرکے زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہنچنے ہی والا تھا کہ مجھے اپنے گھر یعنی واشنگٹن سے فون موصول ہوا کہ میرے والد گرامی کا انتقال امریکہ میں ہوچکا ہے اور ہمارے دیگر قریبی رشتے داروں نے میری فیملی اور میرے والد مرحوم کی لاش کو پاکستان بھیجنے کا انتظام کردیا ہے آپ واپس امریکہ آنے کے بجائے سعودیہ سے اسلام آباد کا ٹکٹ لیں میں زیارت سے فارغ ہوکر سیدھا ائیرپورٹ پہنچا لیکن بدقسمتی سے مجھے کوئی بھی فلائیٹ فورا اسلام آ باد کی نہ مل سکی پی آئی اے کی ایک فلائیٹ اڑان بھرنے کو تیار تھی لیکن اس نے کراچی لینڈ کرنا تھا مجھے بتایا گیا کہ جوں ہی آپ کراچی پہنچیں گے شیڈول کے مطابق آ گے اسلام آباد جانے کے لئے پی آئی اے کی دوسری فلائیٹ تیار ہوگی چنانچہ میں نے مدینہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد کا ٹکٹ لیکر اپنے رشتہ داروں کو آگاہ کردیا اور پی آئی اے کے ذریعہ محو سفر ہوا جب کراچی پہنچا تو امیگریشن کے لئے لائن بڑی طویل تھی میں نے وہاں موجود پی آ ئی اے کے ایک آ فیسر کو اپنی ایمرجنسی کی صورتحال سے آ گاہ کیا اور بتلایا کہ جس فلائیٹ کا ٹکٹ میرے پاس ہے ٹکٹ پر لکھا ٹائم بھی ہوچکا ہے اس لئے آ پ مہربانی کرکے مجھے ترجیحی بنیادوں پر ایمرجنسی کیوجہ سے امیگریشن کروا دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ میری فلائیٹ نکل جائے اور اس پر میں نے بار بار اصرار کیا لیکن انکے کان پر جوں بھی نہ رینگی پھر ہوا یہ کہ جب میں نے اپنا امیگریشن کرا کر فلائیٹ کا پتہ کیا تو وہ جاچکی تھی میں نے پھر ابھی ائیر بلیو کا ٹکٹ لیا تو یہ اناونسمنٹ سنی کہ وہ آخری دفعہ اعلان کررہے ہیں اسکے بعد جہاز کا دروازہ بند کردیں گے میں نے سمجھا دوسری فلائیٹ بھی نکلنے کو ہے تو میں پریشان ہوکر بھاگا کیونکہ میرے والد کی لاش اور میری فیملی اسلام آباد پہنچ کر میرا انتظار کر رہے ہیں
میں نے ان صاحب کو تسلی دینے کے لئے دو بول تسلی کے بولے ان سے کھانے کا پوچھا اتنے میں فلائیٹ کا ٹائم ہوگیا ہم جہاز میں سوار ہوگے ہماری سیٹیں بھی آ گے پیچھیں تھی دوران پرواز وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے میرا ای میل ایڈریس لیا اسلام آباد اتر کر ہم نے ایک دوسرے سے الوداع کیا ہماری آ پس کی یہ مختصر سی ملاقات اور میرے تسلی کے دو جملوں کو موصوف نے اس طرح دل پر سجایا کہ یہ ملاقات ہماری لازوال دوستی کا باعث بن گئی یہ 2008 کا واقعہ ہے 12 سال پر محیط ہماری یہ دوستی ابھی تک جاری ہے
میرے اس دوست کا نام وسیم ہے جو آئی ٹی کی فیلڈ سے وابستہ ہے اور امریکہ میں ایک سافٹ وئیر کمپنی کا مالک ہے جب بے تکلفی ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آ پ کو آئی ٹی کے شعبہ سے متعلق کھبی بھی کوئی مسئلہ ہوا تو میں آپکی مکمل معاونت کروں گا اور جینون آ گاہی دوں گا
اور آپ نے سپیشلائزیشن ان فقہ کررکھا ہے تو مجھے جب بھی دینی مسئلہ ہو تو جینون مسئلہ بتلانا جسکا فرقہ بندی سے دور دور تک کاتعلق نہ ہو میں ایک گناہگار سامسلمان ہوں اور بس کر ہمارے درمیان قائم اعتماد اور اخلاص سے لبریز دوستی کا رشتہ برقرار ہے بعض اوقات مہینوں رابطہ نہیں ہوپاتا لیکن پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں آ تی چار پانچ سال قبل پاکستان آ ئے تو HP کا کور5 کا مخلصانہ تحفہ سے بھی نوازا
گذشتہ دنوں وسیم بھائی نے فون کیا دعا سلام کے بعد ایک دوسرے سے حال احوال کا تبادلہ ہوا اسکے بعد وسیم بھائی نے مجھے سچی سچی بات بتلانے کا کہا اور اس پر زور دیا میں حیران بھی تھا کہ ایسا مسئلہ کیا ہے ۔۔۔۔؟
بالآخر انہوں نے تجسس کو ختم کرتے ہوئے بتلایا کہ میری ایک فیمیل پارٹنر ہیں جن سے آپکی طرح بہت اعتماد کا رشتہ سٹوڈنٹ لائف سے ہے بہت پڑھی لکھی فیملی سے ہیں پاکستانی ہیں لیکن انکا خاندان چالیس سال سے امریکہ میں ویل سیٹل ہے انکے والد پروفیسر ہیں اور انکے بھائی جرنلزم سے وابستہ ہیں تقریبا سات سال سے وہ میری بزنس پارٹنر بھی ہیں انتہائی امانتدار ہیں ہمارے درمیان ابھی تک کوئی الجھاؤ یا شک والا معاملہ نہیں ہوا
اس محرم کے شروع ہوتے ہی انہوں نے کچھ باتیں کیں جن پر مجھے دکھ ہوا میں نے انکو ٹوکا تو انہوں نے کہا کہ آ پکو اسلامک معلومات نہیں اس لئے آ پکو پتہ نہیں ہے
جب بات مزید کھلی تو انہوں نے خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کو طعن وتشنع کا نشانہ بنایا حضرت عائشہ رض پر انگلی اٹھائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو ننگی گالیاں دیں
اب آ پ نے ایسا تحقیقی جواب دینا ہے کہ انکی بھی تشفی ہو اور میرے شکوک وشبہات بھی دور ہوں کل میں اور وہ پاکستان کے ٹائم کے مطابق رات دس بجے کال کریں گے آ پ نے سٹڈی کرنی ہے تو کرلیں اگر آپ نے ہمیں صحیح طور پر گائیڈ کیا تو ہم دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے ہم دونوں اس کو تسلیم کریں گے میرے لئے بہت بڑا چیلنج تھا خیر
مقررہ وقت پر بات چیت شروع ہوئی تو وسیم بھائی کی بزنس پارٹنر فوزیہ صاحبہ کو میں نے پڑھا لکھا تو پایا لیکن دینی طور ناقص اور متعصبانہ معلومات کا حامل پایا
میں نے انکو کھل کر بولنے دیا جب وہ بھڑاس نکال چکی تو میں نے کہا کہ آپ ٹو دا پوائنٹ اپنے سوالات اور اشکالات بتلائیں تو
انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ امام عالی مقام حضرت علی علیہ السلام جو کہ مشکل کشا بھی ہیں حاجت روا بھی ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خونی رشتہ دار بھی ہیں دامادنبی بھی ہیں وہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے خلفائے ثلاثہ نے انکا حق غصب کیا فلاں فلاں
میں کہا دوسرا سوال تو بولیں سنی اہل بیت کو کیوں نہیں مانتے ۔۔۔۔۔۔؟
تیسرا سوال امام عالی مقام حضرت علی علیہ السلام کو آپ لوگ مشکل کشا کیوں نہیں مانتے
چوتھا سوال نواسہ رسول امام حسین علیہ السّلام کی مظلومانہ شہادت کا آپ لوگوں کو غم کیوں نہیں
ان چار بنیادی سوالوں کا پہلے جواب دیں پھر بات آ گے چلے گی ۔۔۔۔۔
میں نے فاتح خیبر خلیفہ چہارم دامادنبی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کامسلمہ مقام اور مرتبہ بیان کرنے کے بعد ان سے یہ سوال کیا کہ جب خلافت کا حق علی المرتضیٰ کاتھا تو گویا کہ آپ کے کہنے مطابق نعوذباللہ پہلے تین خلفاء راشدین نے یہ غصب کیا اور ظلم کیا تو گویا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مظلوم ہوئے تقریبا تیس سال ان پر ظلم ہوا انکو حق نہیں دیا گیا فوزیہ صاحبہ نے کہا بالکل ایگزیکٹلی ایسا ہی ہوا
تو میں نے کہا ایک طرف آ پ کے عقیدہ کے مطابق وہ مشکل کشا حاجت روا دوسری جانب وہ خود مظلوم تیس سال بے بسی کی تصویر بنے رہے کیا یہ تضاد نہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
وسیم بھائی نے اس سوال کو نوٹ کرلیا فوزیہ صاحبہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی پھر کہا کہ اصل میں امت کو نقصان سے بچانے کے لئے خاموش ہوگے
تو میں نے پھر استفسار کیاکہ اسکاگویاکہ یہ مطلب ہواکہ امام عالی مقام چاہتے ہوئے بھی نقصان کے ڈر سے خلافت نہ لے سکے تو فوزیہ صاحبہ نے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہوا
تو پھر میرا سوال وہی ہوا کہ مشکل کشا کا مطلب تو مشکل کو دور کرنا ہے آنا فانا مشکل کا حل نکالنا ہے تو آ پکے عقیدہ کے مطابق وہ کیسے مشکل کشا ہوئے جو خود اس مشکل میں تیس سال پھنسے رہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ شیرخدا ہیں فاتح خیبر ہیں انہوں نے خود تین خلفاء کو خلافت کے تخت پر بٹھایا انکے ہاتھ پر بیعت کرکے انکو استحکام بخشا تینوں کے دور میں قاضی رہے مشکل سے مشکل فیصلے چٹکلوں میں قرآن وسنت کے مطابق کرتے رہے ہمارے بیان کے مطابق جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی عالی شان معلوم ہوتی ہے آپ کےاس بیان کے مطابق تو علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود تیس سال بے بسی کی تصویر بنے رہے کیا یہ انکی شان کے خلاف نہیں ۔۔۔۔۔؟
فوزیہ صاحبہ اس پر مکمل خاموش تھی تو وسیم بھائی نے کہا کہ بات بھی سمجھ آ گئی آپ کے سوال کا جواب بھی فوزیہ صاحبہ کے ذمہ باقی ہے
دوسرا سوال میرا یہ تھا کہ ہم چودہ سو سال بعد آ کر ان لوگوں پر قاضی کیسے بن سکتے ہیں۔۔۔۔؟ جنکو اللہ تعالیٰ نے براہ راست کنتم خیر امۃ اخرجت للناس قرار دیا قرآن کی بیسیوں آیات انکی شان سے بھری پڑی ہیں
ہم اپنے اعمال کو دیکھیں اور اپنی انگلی کو دیکھیں کہ ہم کس پر اٹھا رہے ہیں بالفرض اگر ہم نے ناجائز طور پر ناقص معلومات کی بنیاد پر صحابہ کرام پر بہتان لگائے کل قیامت کے دن اللہ کے دربار میں اگر صحابہ نے یہ سوال کیا کہ چودہ سوسال بعد آ کر یہ کیونکر ہمارے قاضی مسلط ہوئے جن کے پاس ہم میں سے کوئی فریق بھی کیس لیکر نہیں گیا تو ہمارا کیا جواب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟
پھر اصولی بات یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہرا نسان سے اسی کے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ نے صحابہ کے مشاجرات اور معاملات کا کیا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔؟
ہم فضول میں اپنی عاقبت کیوں خراب کررہے ہیں
محترمہ فوزیہ صاحبہ نے ایک لمبی سانس لی جو بات سمجھ آ جانے کی دلیل تھی تقریبا دو گھنٹے گزر چکے تھے لیکن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ہماری بحث محض بحث نہیں نکلی اور میرا اندازہ فوزیہ صاحبہ کے متعلق غلط نکلا انہوں نے بات سمجھ آ نے کے بعد حیل و حجت کے بجائے تسلیم کرتے ہوئے مزید تشفی کے لئے اگلے ویک اینڈ کا ٹائم رکھا اللہ تعالیٰ ہم سب کوحق سچ کو سمجھنے اور اچھے طریقے سے سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین