گزشتہ ماہ ٹیکسلا شہر میں دو خواتین کے مابین شادی، پولیس کیس اور پھر عدالتی کاروائی کا آغاز ھوا۔آۓ دن ھمارے معاشرے کے اندر اس طرح کے ملتے جلتے واقعات رپورٹ ھوتے ہیں ، کبھی خواتین کی آپس میں شادی، کبھی مردوں کی اور کبھی مرد اور تیسری جنس کی۔ جنکے لیے ھمارے معاشرے میں مختلف القابات کا استعمال کیا جاتا ہے،(ہیجڑا، کھسرا، ٹرانس جینڈر، شی میل اور ھی میل وغیرہ وغیرہ)۔
آخر یہ تیسری جنس کہاں سے اور کیسے آئی ہے؟
اگر اردو ادب شاعری یا تاریخ کی بات کی جاۓ تو یہی امر سامنے آتا ہےکہ بادشاھوں کے درباروں اور زنان خانوں میں مستورات کے احترام اور پردے کے قاعدے کو ملخوظ خاطر رکھتے ھوۓ خواجہ سراوں کو ملازم رکھا جاتا تھا جو کہ پردے کے نقطہ نظر سے مستورات کے لیے بے ضرر تصورکیےجاتے تھے۔ یہ تو تصوراتی باتوں کو قرطاس پر محفوظ کیا گیاہے۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ ایسی تیسری جنس کی تخلیق، موجودگی اسکی بیالوجیکل خصوصیات کو مذہب اسلام، جدید طبی ساٰئنس، ماہرین جنسیات اور بیالوجسٹ تسلیم کرتے ہیں؟۔
قرآن پاک کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر 13 میں اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں:
یایھاالناس انا خلقنکم من زکر و انثی و جعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ان اللہ علیم خبیر۔
ترجمعہ: اے لوگو! ھم نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھارے کنبے اور قبیلے بنا دیے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور با خبر ہے۔
سورہ التین کی آیت نمبر4 میں اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں:
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔
ترجمعہ: یقینا ھم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔
قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس امر کا اظہار کیا گیا ہےکہ انسان کی تخلیق جوڑے کی مرھون منت ہے اسطرح زمینی پیداوار پھلوں اورکائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں جوڑے کا تذکرہ موجود ہے۔
یہاں پر اس امرکا واضح اظہار ھو جاتا کہ اللہ تعالی نے انسان کو مکمل اور جامع شکل میں پیدا کیا ہے۔یہ قرآن پاک اور اسلامی نقطہ نظر ہے۔ جس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش موجود نہ ہے۔
اب مغرب کے نظریئے اور تحقیق کی بات کرتے ہیں۔
انیسویں صدی میں ایسی خواتین جو سیکس ورکنگ سے منسلک تھیں ، انکے لیے شی میل کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ شی میل کی اصطلاح کا ماحذ پورنو گرافی کی انڈسٹری ہے۔ کہ ایسا مرد یا عورت جو ثانوی درجے کی جنسی خصوصیات کو جنسی کاروباری مقاصد کے لیے استعمال میں لائے۔ 1910 میں جرمن ماہر جنسیات Magnum Hirschfield) ) ایسے فرد کے لیے لفظ “Transvestite” کا استعمال کیا جس کے معانی ہیں ایسا فرد جو اپنی مخالف جنس کا لباس پہن کر خوشی محسوس کرے۔ اسی جرمن ماھر جنسیات نے 1919 میں پرائیویٹ "برلن سیکس ریسرچ انسٹیویٹ" کی بنیاد رکھی، جہاں پر 1930میں جنس کی تبدیلی کا پہلا آپریشن کیا گیا۔ اس انسٹیویٹ کو سویت یونین اور دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے تایئد بھی حاصل رہی۔ 1933 میں نازیوں کے اقتداد میں آنے کے بعد اس ادارہ کے سربراہ کو کیمپ میں بھیج دیا گیا اور عمارت پر قبضہ کر کے اسکی لائبربری کی 20ہزار کتب، اور تحقیقی جرنلز اور 5 ہزار کے قریب تصاویر وغیرہ کو نذر آتش کر دیاگیا ۔ اور قانون میں ترمیم کر دی گئی کہ کوئی بھی شخص اس عمارت کی ملکیت کا دعویدار نہیں ھو گا۔ بعد میں 1944 میں اس عمارت کو مکمل طور پر بم مار کر تباہ کر دیا گیا۔ اور 1975 میں مسڑ میگنم کی یاد میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ میں اس انسٹویٹ کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی۔
1996 سے قبل لفظ "ٹرانس جینڈر" سے بھی دنیا لاعلم تھی۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں 1552 میں ایسے فرد کے لیے لفظ “androgyny” استعمال کیا گیا، جسکے معانی ہیں کہ کسی فرد میں مردانہ اور زنانہ مخلوط خصوصیات کا موجود ھونا۔ یہاں یہ امر واضح ھوتا ہےکہ مخلوط خصوصیات، عادات و اطوار کی موجودگی قدرتی ، ارتقائی، پیدائشی اور طبیعی عمل نہیں ہے بلکہ کسی بھی فرد کا خود اختیاری اپنایا گیا فعل و عمل ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں ہی لفظ “She-male as a passive male homosexual or transvestite , it has used as gay slang for foggot”.
کیلفورنیا میں 1990 میں متعدد جنسی خصوصیات کے حامل فرد کے لیے لفظ “poly-gander” کا استعمال کیا گیا۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہیجڑا، نیوزی لینڈ میں لیڈی بوائے/ ٹام بوائے اور تھائی لینڈ میں تکتاپوئی” takatapui” کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
امریکن انقلابی بیالوجسٹ و اکیالوجسٹ Jhon Roughgarden جو کہ چارلس ڈارون کے "از خود جنس چننے" کے نظریئے کی مخالفت میں لکھتی ہیں کہ:
She writes” that gynomorphic male and female andromorphic females are prescribed in scientific literature, I hope future works on these animals is carried out with more professionalism ”.
1990 میں امریکن ماہر نفسیات Jennifer Anne Stevens نے اپنی مشہورکتاب “Masculine To Feminine And all Points In Between” میں لکھتی ہیں:
” she-male as usually a gay man who live full time as a women, a gay trans-gander”.
انسٹویٹ فار ریسرچ آن ویمن کے ڈائریکٹر جایک ھالبرسٹم لفظ شی میل کو “degrading pornographic “ کی اصطلاح میں استعمال کیا ہے۔
امریکہ میں ھم جنس پرستی کے حقوق کے لیے اواز اٹھانے اور تحفظ کےلیے 1985 میںGay & Lesbian Alliance Against Defamation GLAAD) (کی بنیاد رکھی گی۔
اس تمام بحث سے اس بات کا اظہار ھوتا ہے کس بھی فرد کا جنسی طور پر بے راہ روی کا شکار ھو کر ، اس پر قائم رہنا اور پھر اس طرزعمل کو زریعہ معاش بنالینا ، آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں ٹرانس جینڈر، شی میل اور ہی میل وغیرہ کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ اور ھم معاشرتی اور اخلاقی طور پر اتنے کمزور ھو گئے ہیں کہ بجائے اس مسلئے کی اصل جڑ کو سمجھنے کہ جدید دنیا کے نقش قدم پرچل پڑے ہیں۔
ا یک بات پر مسلم اور غیر مسلم محقیقن متفق ہیں ، تیسری جنس کا کوئی تحلیقی اور طبعی تصور موجود نہیں ہئے۔ اپنی جنس کے ساتھ ردوبدل کرنا، پہننے اوڑرھنے، اور گفتگو و آداب میں تبدیلی انسانی خود اختیاری فعل ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جنس کی تبدیلی کا سرکاری سطح پرزریعہ علاج موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ھوتا بھی ہے تو یہ پرائیویٹ کلینکس کے کارنامے ھوتے ہیں، جو نیم کامیاب و ناکام ھو کر انسان کو ادھورا انسان کر دیتے ہیں ، لہذا ایسا اداروں کے خلاف کوئی باضابطہ قانونی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ خود اختیاری جنس تبدیلی کو قانونی دائرہ کار میں لاتے ھوئے ممنوع قرار دیا جائے ، نہ کہ مغرب کی دیکھا دیکھی ھم جنس پرستی کو آنکھیں بند کر کے فروغ دیا جائے۔ اور مزید معاشرتی خرابیوں اور بگاڑ کو فروغ دیاجائے۔ پاکستان میں تیسری جنس کے دعویداروں کو سرکاری رجسڑیشن کے عمل میں لانے کے لیے میڈیکل لازم قرار دیا جائے تاکہ اس بات کا سراغ لگایا جاسکے، ھم کس حد تک جنسی برایئوں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔اور جو لوگ کسی حادثاتی یا واقعاتی یا ناگہانی غلطیوں کے نتیجے میں اس برائی کا شکار ھو گئے ہیں ، انکی بحالی و واپسی کے لیے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مدد سے فلاحی ادارے قائم کیے جاہیں، جو ڈاکٹرز، ماہرین نفسیات، مذہبی اکابرین ، استاتذہ اور پیشہ ور ہنر مندوں پر مشتمل ھوں ، جو ایسے افراد کادرست سمت میں علاج، رہنمائی اور معاونت کر سکیں اور انھیں کسی تخلیقی ہنر سے آگاہی دیں جسے زریعہ معاش بناکر اپنی شاخت اور شخصیت کو قائم رکھ سکیں۔ معاشرے میں معاشرتی اور معاشی مساوات قائم کیا جائے، بےروزگارزی، غربت، تعلیم سے دوری اورمعاشرتی استحصال بھی نوجوانوں کی بے راہ روی کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ اور والدین پر بنیادی زمہ داری عائید ھوتی ہے کہ اپنی اولادکو مذہبی تعلیمات سے بہرہ ور کریں۔
اسلام ھم جنس پرستی، جنس کی تبدیلی اور اشکال کو بگاڑنے کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔
سورہ النساآیت 119 میں اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں:
ولا ضلنھم ولا منینھم ولامرنھم فلیبتکن اذان الانعام ولامرنھم فلیغیرن خلقاللہ، ومن یتخذ الشیطن ولیا من دون اللہ فقد خسر خسرانا مبینا۔
ترجمعہ: (شیطان کہتا ہے) اور انہیں راہ سے بھٹکاتا رھوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رھوں گا اور انھیں سکھاوں گا کہ جانوروں کے کان چیر یں اور ان سے کہوں گاکہ اللہ تعالی کی بنائی ھوئی صورت کو بگاڑ یں، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صیح نقصان میں ڈوبے گا۔
اس سورہ مبارکہ کی آیت 122 میں اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ:
والذین امنو و عملواالصلحت سندخلھم جنت تجری من تختھا الانھر خلدین فیھا ابدا، وعداللہ حقا، و من اصدق من اللہ قیلا۔
ترجمعہ: اور جو ایمان لائے اور بھلے کام کریں ھم ان کو جنتوں میں لے جاہینگے، جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں یہ ابدالاباد ہیں گئے یہ اللہ کا وعدہ ہے جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ھو۔
سورہ الحجر آیت 92 کے ساتھ اپنے موضوع کو سمیٹوں گی۔
فو ربک لنسلنھم اجمعین۔ (قسم ہے تیرے پالنے والےکی ! ھم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گئے)۔