406

لاک ڈاؤن، بچے اور ھم والدین

جب سے لاک ڈاؤن ھوا ھے، تب سے میں اپنے ارد گرد موجودو بچوں اور والدین کے معاملات کوخصوصی طور پر زیر مشاہدہ رکھا کہ یہ  گھر میں موجود رہنے والے اس دورانیہ کو کسطرح سے ترتیب دیں گے، کیسے استعمال کریں گے، بچوں کو کونسےنئے امور اور باتیں سیکھاہیں گئے ۔ تاھم اس معاملےمیں کوئی خوش آئند حالات دیکھنے کو نہیں ملے۔ جہاں تک بھی نگاہ دوڑائی تو یہی مشاہدہ میں آیا کہ رات دیر تک جاگنا، موبائل فونز پر مصروف رہنا، گیمز ، سیلفی و وڈیو میکنگ اور پھر دن چڑھے تک سوتے رہنا، اور کہیں بچے تو ایسےبھی ہیں جو شام 4/4 بجے تک سوئے ھوئے پائے جاتے ہیں۔ اور مزے کی بات اس ساری صورتحال میں والدین نے بھی اپنی روٹین بچوں کی سہولت کے مطابق سیٹ کی ھوئی ھے۔ اس دوارنیہ میں سب سے زیادہ متاثر ھونے والے وہ بچے ہیں جو بارہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے دوارن میں ہیں۔ میرے نزدیک عمر کے لحاظ سے یہ بچوں کا سب سے نازک دور ھوتا ھے ، جس میں صیح معنوں میں کسی بھی بچے کی کردارو شخصیت سازی ھو رہی ھوتی ھے۔ عمر کے اس دور میں بیرونی عوامل کی مداخلت کے بغیربچوں کی تربیت اسطرح سے کی جا سکتی ھے کہ ھم بچوں کو قول، فعل، عمل، اخلاق، مذہبی عقائد، سماجی و معاشرتی وقار اور اچھے برے کے درمیان فرق اور تمیز کو زیادہ بہتر انداز اور طریقے سے سمجھا سکتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ھونے کی عادات کو بھی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ 
اٹھارہ سال کے بعد بچہ زہنی طور پر شعور پکڑنا شروع کر دیتا ہے، تعلیمی مدارج کیوجہ سے بچے کا سماجی و معاشرتی حلقہ احباب بھی بڑھنا شروع ھو جاتاھے ، پھر اس دور میں بچوں کے اندر موازنہ کرنے کی صلاحیت بھی پروان چڑھ رہی ھوتی ھے ، تب بچے والدین کی کہی ھوئی ہر بات کو اپنے اردگرد کے ماحول سے تقابل کرتے ہیں اور اسے اپنی عقل کی کسوٹی  پر پرکھتے ہیں ، تو والدین کی کہی ھوئی بات اپنی اہمیت کھو دیتی ھے ۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ موبائل فون علوم کے خزانوں سے بھرا ھوا ھے۔ درست سمت میں اسکو استعمال کرنے والے اس سے فائیدہ بھی اٹھاتے ہیں، لیکن جو بچے ابھی شعور کی پختگی کو نہیں پہنچے وہ اس میں صرف سیلفیز، گیمز اور چیٹنگ میں ہی مصروف رہ کر اپنے قیمتی وقت کا ضائع کر رہےھوتے ہیں۔ والدین نے بھی بچوں کو ایک سائیڈ پر رکھنے کے لیے ان کے ھاتھ میں موبائل فونز دیکر اپنی زمہ داریوں سے مبرا ھو جاتے ہیں، جو کہ کسی بھی طور پر مثبت طرز عمل نہ ھے، 
آج کے بچوں کی تعلیمی، علمی اور معلوماتی استعداد کو دیکھا جائے تو وہ کسی طور بھی قابل ستائش نہیں ھے، اس معاملے میں جہاں استاتذہ کے فعال کردار کی ضرورت ہے وھاں پر والدین پر بھی برابر کی زمہ داری عائد ھوتی ھے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ھےکہ آٹھ ، نو سال کی عمر میں ہی ھمارے والد صاحب رات کے کھانے کے بعد خصوصی طور پر اور پابندی کے ساتھ ھمیں روزانہ، قرآن پاک کی آیات،  انبیاء کرام کی زندگی کے واقعات،  نیک کام کرنے کی ترغیب، نماز قائم کرنے کی اہمیت، جھوٹ سے اجتناب، وعدے کی اہمیت، جنت و آخرت کی زندگی کو نبی آخرالزماں حضرت محمد ؐمصطفے ﷺ کی حیات طیبہ، امہات المومنین کی زندگی و سیرت سے جوڑ کر اس خوبصورت انداز میں بیان کرتے کہ ھم کہیں کہیں دن ان الفاظ کی بازگشت کے زیر اثر رہتے، جسکی وجہ سے مجھے اپنے بچپن میں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کی آگ ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی حضرت یعقوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی، کنوہیں کی قید، اور بازار مصر میں فروخت، حضرت موسی علیہ السلام کا صندوق میں دریا برد ھونا ،عصا کی کرامات، کوہ طورپر جلوہ خدا اور فرعون کا دریائے نیل میں غرق ھونا اور پیارے بنیﷺ  کی سیرت طیبہ، صحابہ کرام کی حیات، مشکلات و ایثار، واقعہ کربلاء اور یزید کے مظالم  کے چیدہ چیدہ تمام پہلوؤں سے آگاہی تھی۔ نہ صرف مذہبی حوالے سے بلکہ تحریک آزادی، تقسیم ھند، قیام پاکستان، سیاسی حالات، مارشل لاء اور جمہوری ادوار کے قصے، محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت اور الیکشن مہم، اندرا گاندھی کا قتل، بین الااقوامی امور، چو این لائی،  جمال عبد الناصر، یاسر عرفات، شاہ فیصل بن سعود، اسلامی سربراہی کانفرس،  جان ایف کینبڈی کی موت، ریگن، رچرڈ نکسن اور ھنری کسنجر سے  جڑے واقعات اور امور کے بارے میں بتاتے، اور ھمیں شدت سے رات کے وقت کا انتظار ھوتا کہ کب اس خاص محفل کا آغاز ھو گا، ایک سکوت کا عالم طاری ھو گا اور ھم پورے زوق و شوق سے سماعت کے لیے منتظر ھونگے،   بہت عرصے بعد شعور کی سیڑھیاں طے کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ بھی تربیت کرنے، کردار اور  شخصیت سازی کرنے کا انداز و طریقہ کار تھا۔
میرا اپنے قارئین سےبلا تحصیص مرد و عورت یہ سوال ھے کہ ھم میں سے کتنے والدین ایسے ہیں جنھوں نے بحثیت ماں یا باپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انکی رہبری کی کوشش کی ھو، یا انھیں اپنے مذہب واخلاقیات سے آگاہی دینے کی سعی کی ھو، جبکہ میری ، اپکی ، ھم سب کی تربیت ھمارے دور کے مطابق کم و بیش اسی ہی طریقہ کار سے ھوئی ھے، جبکہ آج میری اور اپکی جنریشن  بحثیت  والدین اپنا کردار اس طرح سے ادا نہیں کر رہے جیسا کہ اصولی طور پر ھونا چاہیے تھا۔ ھم نے تعلیم دینے کی زمہ داری سکولز اور استاتذہ اور ٹیوشن سینٹرز کو ، دینی تعلیم و شعور دینے کی زمہ داری حافظ/ قاری/مولوی صاحب کو اور کردارسازی کرنے کی زمہ داری موبائل فونز کو سونپ دی ھے اور خود صرف پیسہ کمانے والے مشین بن کر سمجھ رھے ہیں ھم اپنے بچوں کو ہر آسائش دینے کے لیے دن ورات ایک کیے ھوئے ہیں۔ 
      کیا ھم اپنے کردار کے ساتھ مطمئن ہیں ؟
      کیا ھم بحثیت والدین اپنی زمہ داریوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ 
                یقیننا ! بہت سوں کا جواب نفی میں ھو گا۔  
وباء کے دنوں کا یہ لاک ڈواؤن اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے اور انکی تربیت کرنے کا بہترین موقع ھے۔ آیئے ھم اپنے بچوں کو جدید، مثبت اور تعمیری اسلوب سکھاہیں، نماز کی باقاعدگی، تلاوت قرآن پاک،  ترجمہ و تفسیرکے ساتھ پڑھائی کرنا، قرآنی صورتوں اور آیات کو زبانی یاد کرنےکا شوق پیدا کرنا،  انھیں کتابیں پڑھنے کا شوق دیں( چاہے مذہب، کہانیاں، فکشن، سائینس، آرٹ ، میوزک، شاعری، تاریخ، ادب یا جغرافیہ سے متعلق ھوں)، انکی اندورنی اور چھپی ھوئی صلاحیتوں کو پہچانے اور دریافت کرنے کی کوشش کریں، انھیں کھیل کود کے مواقع دیں،انکے ساتھ انکی دلچسبی کی بات چیت کریں، بحث کریں، خوشخطی، حطاطی، ڈرایئنگ ، کریٹو رائیٹنگ ، ہینڈی کرافٹس، کوکنگ، سلائی کڑھائی، تہذیب و ترتیب ، سلیقہ، ہنر مندی اور تعمیری شعور دیں۔ یہ وہ وقت ھے جس کو والدین جس طرح سے ترتیب دیں گے ھمارے بچے اسے اسی طرح سے استعمال کریں گے۔ بچوں کے قریب ھونے اور بہترین تربیت، کردار و شخصیت سازی کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں، اسے موبائل فونز، ٹی وی اور صرف سونے و جاگنے کے سپرد کر کے ضائع نہ کریں۔
 

بشکریہ اردو کالمز