333

کل کی بات

محقق اور دانشور محمد کاظم لکھتے ہیں کہ علامہ محمد عبدالمالک کھوڑوی نے عربی زبان کی مشہور نعتیہ نظم ’’قصیدہ بردہ‘‘ کی اردو میں جو شرح لکھی ہے وہ عالمانہ اور دلچسپ ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں نظم کے اشعار کا ترجمہ اور تشریح اردو نثر میں دینے کے علاوہ ہر عربی شعر کے نیچے اس کا ایک ترجمہ فارسی شعر کی صورت میں بھی دیا گیا ہے۔عبدالمالک صاحب کا تعلق گجرات کے قصبے کھوڑہ سے تھا۔ وہ اردو کے،فارسی اور عربی زبانوں پر بھی یکساں دسترس رکھتے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔محمد کاظم نے ان کی لکھی ہوئی شرح پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ ان کی یہ تحریر ان کی کتاب ’’کل کی بات‘‘ میں شامل ہے۔ محمد کاظم لکھتے ہیں۔ ’’قصیدہ بردہ عربی زبان کے نعتیہ ادب کی ایک جلیل القدر نظم ہے، شہرت میں اگر کوئی دوسری نظم اس کی ہمسری کرتی ہے تو وہ حضرت کعب بن زبیرؓ کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ ہے جو آپ نے اسلام لانے کے موقع پر رسول اللہؐ کے حضور پیش کیا تھا اور جس پر خوش ہو کر جناب رسالت مآبؐ نے آپ کو اپنی چادر عنایت فرمائی تھی لیکن جو شہرت اور پھیلاؤ اور جو قبول عام قصیدہ بردہ کو حاصل ہوا ، وہ عربی زبان کی کسی بھی دوسری نعتیہ نظم کو نہیں ہو سکا۔ اس کے ترجمے انگریزی، لاطینی، جرمنی، فارسی، ترکی، بربری اور اردو زبانوں میں ہو چکے ہیں۔

قصیدہ بردہ کے مصنف ابو عبداللہ شرف الدین محمد بن سعید البوصیری ہیں۔ یہ بربری نسل کے ایک عربی شاعر اور صوفی تھے۔ ان کے والد کا تعلق چونکہ مصر کے قصبہ بوصیر سے تھا اس لیے یہ بوصیری مشہور ہوئے۔ قصیدہ بردہ کی تخلیق کے ضمن میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ بوصیری پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا نصف حصۂ جسم بے کار ہو گیا۔ اس بیماری کے دوران میں انھوں نے یہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ جب یہ مکمل ہو گیا تو اسے بار بار پڑھتے اور اپنی صحت کے لیے خدائے تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے۔ ایک رات اسی حالت میں سو گئے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں حضورؐ تشریف لائے ہیں۔ آپؐ نے اپنا دست مبارک ان کے جسم پر پھیرا اور ان پر ایک چادر ڈال دی۔ جب یہ صبح بیدار ہوئے تو اپنے آپ کو بالکل تندرست پایا۔ اس واقعہ کا ان پر بے حد اثر ہوا اور اس کی مناسبت سے انھوں نے اپنے قصیدے کا نام ’’قصیدۂ البُردہ‘‘ رکھا ۔

’’اسلامی ریاست‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی کتاب پر جس کا اردو میں ترجمہ نثار احمد نے کیا ہے اور مفصل حواشی لکھے ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم اسے اسلامی ریاست کے موضوع پر ایک مفید اور اہم دستاویز قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس مختصر سی کتاب میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بارے میں تقریباً سب اہم سوالات کا جواب آگیا ہے۔ اسلامی ریاست کا سنگ بنیاد کب اور کہاں پڑا؟ اس ریاست کی خصوصیات کیا تھیں؟ اس کے ذرائع آمدنی کیا تھے؟ اس کا ڈھانچہ کس طرح کا تھا؟ اس طرح کے تمام سوالوں کا جواب اس کتاب میں واقعات اور حقائق کی روشنی میں ملے گا۔

بس ایک سوال ذہن میں رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ایسی اسلامی ریاست جو اپنی اصل خصوصیات کے ساتھ صرف پہلی صدی ہجری کے کچھ حصے تک قائم رہ سکی، اب اس زمانے میں اس کے قائم ہونے کے امکانات کس قدر ہیں؟‘‘محمد کاظم لکھتے ہیں ’’اس سوال کا جواب جو آج سے بیس پچیس سال پہلے اتنا دھندلا دکھائی نہیں دیتا تھا جتنا اب دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی ریاست کو پھر سے قائم کرنے کے لیے جو تنظیمیں اٹھی تھیں، وہ اس زمانے میں اپنے عروج پر تھیں اور حالات کافی امید افزا تھے لیکن افسوس وہ تنظیمیں داخلی انتشار اور خود شکستگی کے عمل سے دوچار ہوگئیں۔‘‘

کتاب ’’بروہی لوک کہانیاں‘‘ پروفیسر انور رومان نے مرتب کی ہے۔ محمد کاظم کہتے ہیں کہ لوک کہانیوں کے متعلق کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ کہانیاں ہمارے لکھے ہوئے افسانوں اور ناولوں سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ بروہی کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے؟ ان کی تاریخ کیا ہے؟ انور رومان نے اپنی کتاب کے دیباچے میں جو بتایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بروہی پاکستان کے قدیم ترین قبائل میں سے ہیں، بلوچیوں کا پہلا خاندان تھا جو کوہ البرز سے چل کر بلوچستان آئے تھے۔

پروفیسر انور رومان نے اپنی کتاب خیمے میں رہنے والی اور پہاڑوں اور گھاٹیوں میں اچھل کود کرنے والی ایک بروہی لڑکی سے منسوب کی ہے۔ محمد کاظم کہتے ہیں کہ یہ ایک خوبصورت اور برمحل انتساب ہے جو ان کہانیوں کی دنیا میں داخل ہونے والے قاری کو متاثر کرتا ہے اور وہ اپنے خیال میں ایک رومانی دنیا سجائے ان کہانیوں کی ولایت میں قدم رکھتا ہے۔

یہ بروہی لڑکی اپنے بوڑھے باپ کے ہمراہ جاتے ہوئے بازار میں ایک کار کے پاس رکی اور کار میں بیٹھی ہوئی ایک خوش وضع اور نازک اندام خاتون کو گھورنے لگی جس نے بیش قیمت لباس اور سونے کے جگ مگ کرتے ہوئے زیورات پہن رکھے تھے۔ بوڑھے باپ نے یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیٹی قیمتی کپڑوں اور زیوروں کی چمک دمک سے مسحور ہوگئی ہے۔

اس نے کہا زیبو! آگے چلو، اپنی چاندی دوسروں کے سونے سے بہتر ہے۔ اس لڑکی نے خاتون پر آخری نگاہ ڈالتے ہوئے معصومیت سے جواب دیا، ’’بابا! میں تو یہ سوچ رہی تھی اگر اس عورت کو خیمے میں رہنا پڑے، دودھ دوہنا اور بلونا پڑے، ریوڑ چرانا پڑے، پہاڑوں اور گھاٹیوں میں چڑھنا اترنا پڑے تو یہ بے چاری کیا کرے گی؟‘‘ ایک جنگلی اور سیدھی سی لڑکی کا ایک سادہ سا سوال! اس کے بابا نے اس کا کیا جواب دیا ہوگا؟ وہ یہ خیال کرکے آگے بڑھ گیا ہوگا کہ اس کی زیبو کتنی بھولی ہے کہ اس انداز سے سوچتی ہے۔

’’دو پاٹن کے بیچ‘‘ رضیہ فصیح الدین کے سولہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم کا کہنا ہے ’’کسی افسانے سے لطف اندوز ہونے کی سب سے اچھی صورت تو یہی ہے کہ اسے علاحدہ کسی رسالے میں پڑھا جائے۔ ایک مجموعے میں شانے کے ساتھ شانہ ملائے ہوئے افسانے ایک پکچر گیلری کا سا تاثر دیتے ہیں جس میں ایک تماشائی تصویروں کے جنگل میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ جب وہ کچھ لمحے فن کی اس نمائش کے درمیان بسر کرکے باہر آتا ہے تو اس کے ذہن پر کسی ایک فن پارے کا متعین اور دیرپا تاثر نہیں ہوتا بلکہ سب فن پاروں کا ایک ملا جلا پچرنگ قسم کا تاثر ہوتا ہے جو آسمان کی دھنک کی طرح تھوڑی دیر رہ کر زائل ہو جاتا ہے۔‘‘

محمد کاظم نے پکچر گیلری کا سا تاثر ختم کرنے کے لیے یہ کہا کہ ’’دو پاٹن بیچ ‘‘ کے افسانوں کو وقفے وقفے سے پڑھا اور محسوس کیا کہ یہ افسانے اچھے اور کامل مسرت پہنچانے والے ہیں اور ان کے پڑھنے سے انھیں وہی سرور حاصل ہوا جو ایک انسان کو کسی ڈھلان سے اترتے وقت حاصل ہوتا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم