یہ رواں سال 8 مارچ کے دن کی بات ہے، اس سے دو دن قبل خواتین کے تخفظ کے حوالے سے ایک اسائینمنٹ پہ کام کر رہی تھی ، اس ریسرچ کے دورران مختلف قوانین کا مطالعہ اور خواتین کو درپیش مسائل و واقعات پڑھ پڑھ کہ طبیعت بہت ہی افسردہ اور بوجھل ھوئی تھی۔ کہ آج بھی ھمارے معاشرے کی ہر سطح کی عورت کو اپنا مقام منوانے کے لیے بہت سے محاذوں پہ بیک وقت لڑنا پڑ رہا ہے۔
اسی دواران 8 مارچ کے دن کچھ دستاویز کی ترسیل کے لیے ایک قریبی کوریئر سروس کے سینٹر جانے کا اتفاق ھوا۔سینٹر میں اس وقت میرے علاوہ ایک بیس بایئس سال کے لگ بھگ لڑکی جو کسٹمرز کو ڈیل کر رہی تھی۔ جبکہ کسٹمرز میں میرے علاوہ ایک مرد ساہیڈ صوفے پہ بیٹھا اپنی دستاویزات کے ساتھ مصروف تھا ، ایک اور شخص لڑکی بالمقابل دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکے ایزی موڈ میں کھڑا تھا، جبکہ کاونٹر پر ایک کسٹمرجو اچھی بھاری صحت مند جسامت ، اچھی ڈریسنگ اور عمر میں کوئی 40/50 کے قریب ھو گا، اپنی ڈیلنگ میں مصروف تھا، چونکہ مجھے بھی لفافے پر پتہ وغیرہ تحریر کرنا تھا سو میں بھی قلم لیکر صوفے کی ایک ساہیڈ پر بیٹھ کر اپنے کام میں مصروف ھو گئی۔ اچانک ہی کاونٹر پر کھرے شحص نے سینٹر کی ملازم لڑکی پر زور زور سے چلانا شروع کر دیا ، جبکہ لڑکی اپنے معمول کے دھمیے انداز میں اسے سمجھا رہی تھی کہ ھہمیں ایسے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اور پھر اس مرد نے اپنے ھاتھ میں پکڑے ھوئے کاغذ اور چیک کی کئی ٹکڑے کرتے ھوئے اس لڑکی کے منہ پر مار کے اول فول بولتاھوا گلاس ڈور سے باہر نکل گیا۔( جو کہ اس بات کا عندیہ تھا کہ تمھارے منہ پر بہت سے تھپڑ)۔
اس دوران سینٹر میں مکمل خاموشی رہی کسی بھی شحص نے منہ سے ایک بھی اچھا یا برا لفظ نہیں نکالا، اسکے بعد کاونٹر پر میری باری ائی تو اس لڑکی کی آنکھؤں میں آنسوؤں کا ایک طوفان، چہرے پر دکھ، کرب، تکلیف، شرمندگی، ندامت ازیت غرض یہ کہ اپنے بے مول ھونے کی ایک لامتناہی تحریر واضح نظر آ ہی تھی، چونکہ اپنی طبیعت میں نہ اپنے ساتھ زیادتی اور نا انصافی پسند ہے اور نہ کسی اور کے ساتھ ھوتے ھوئے دیکھ سکتی ھوں، مجھ تب تک اس سارے واقعہ کا سبب بھی نہیں پتا تھا، میں نے لڑکی سے نہ تو وجہ پوچھی اور نہ ہی اظہار ھمدردی کیا ، بلکہ میں نے اسے کہا، " بیٹا اگر اپ گھر سے کام کرنے کی غرض سے نکل آئی ہیں تو پھر اس راستے میں آنے والے گندے رویوں کی وجہ دلبرداشتہ ھو کہ اپنا راستہ نہیں چھوڑنا اور اپنی منزل کی تلاش سے پیچھے نہ ہٹنا،اپ نے اپنی موجودگی سے اپنے وقار ، شخصیت اور تربیت کو ثابت کرنا ہے جبکہ ہم (کسٹمر) معاشرے میں اپنے رویے سے اپنی شخصیت، تربیت اور آخلاقیات کا مظاہرہ کریں گیے"۔ میں اس وقت اپنے کہے ھوئے الفاظ کو حرف بہ حرف بیان کیا ہے۔ میرے ایسے کہنے پر دیوار کے ساتھ کھڑا شخص بولا کہ ، ھم مجبور ہیں ، ھم نے ہر صورت میں اپنے کسٹمرز کو قائم رکھنا ھوتا ہے، اس لیے ایسے رویے برداشت کر لیتے ہیں، مجھے اس شخص کے الفاظ پر شدید غصہ آیا اور میں نے اسے کہا کہ اپ برداشت کی تلقین اس لیے کر رہے ہییں یہ رویہ اپکے ساتھ نہیں بلکہ اس معاشرے کی کمزور اور کم سن ، لاچار لڑکی کے ساتھ پیش آیا، اگر اس کی جگہ اپ یا کوئی اور مرد کھڑا ھوتا تو ھم دیکھتے اپ کہاں تک کسٹمر کیر کا لٹریچر تقسیم کرتے، اگر یہ ادارے اپنی خواتین ورکرز کو عزت نفس قائم رکھنے کا تخفظ نہیں دے سکتے تو انہیں ملازمت پہ رکھتے ہی کیوں ہیں۔ میرا ایسا کہنے پر وہ شخص خاموشی کے ساتھ باہر کو کھسک گیا یا اس نےغائب ھو جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ھو گی۔
اس شخص جانے کے بعد اس لڑکی نے بتایا کہ وہ کسٹمر لکھا ھوا چیک کورییر کرنے کا اصرار کر رہا تھا جبکہ میں اسے پندرہ منٹ سے کنوینس کر رہی تھی کہ ایسا کرنے کی ہمیں قانونی طور پر اجازت نہیں اور جسکے جواب میں جو کچھ ھوا ، وہ اپکے سامنے ہے۔یہاں تک یہ اس واقعہ کا ایک پہلو ہے، کھسکنے والے شخص کے متعلق اس لڑکی نے بتایا کہ میرے لیے سب سے زیادہ حوصلہ شکنی کی بات یہ ہے یہاں پر کھڑا شخص اس ادارے کا سکیورٹی انچارچ ہے جو مجھے برداشت کرنے اور کسٹمر نہ کھونے کا درس دے رہاتھا۔
جس پر مجھے شدید دکھ، تکلیف اور غصے کی ازیت سے دو چار کر دیا اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہم کب تک کمزور پر دھونس ، چلانے اور دبانے کے طریقہ کار پرکاربند رہینگے۔ ہمیں اپنے رویوں میں بہت معمولی سی تبدیلی لانی ہے، اپنے رویوں کو ، اپنے انداز کو ، اپنے برتنے کے اسلوب کو خوبصورت بنانا ہے، معاشرہ صرف پھولوں ، پودوں اور لینڈ سکیپنگ سے خوبصورت نہیں بنتا بلکہ ھم سب بطور شخص اپنے کردار، افعال، برتاو اور شخصیت سے اسکی خوبصورتی میں رنگ بھرتے ہیں۔ ہم نے اپنی موجودگی کے احساس سے اپنے اردگرد خوشبو بکھیرنی ہے،اور تکریم انسانیت ہی معراج آدمیت ہے۔