358

*یوم مزدور* 

دنیا کے کئی ممالک میں آج یوم مزدور یعنی لیبر ڈے منایا گیا۔۔ 

یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟ یوم مزدور، یکم مئی، مزدور کا عالمی دن ہم کیوں مناتے ہیں؟ ہوتا یہ تھا کہ مزدور سے جانور کی طرح دن میں 16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا، تنخواہ بھی اچھی نہ تھی اور ٹائم کا بھی تصور نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی بھی ہوجاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا، ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

1886 میں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کے دوران  ان محنت کشوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ان محنت کشوں کی یاد میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ شکاگو وہ شہر ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔۔

ہمارے ہاں بھی یہ دن منایا جاتا ہے یکم مئی 1972ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا۔ تب سے اب تک ہرسال یکم مئی کو ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔۔

اس دن پر کہیں بڑے بڑے تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں   بڑے بڑے جھوٹے وعدے اور  تسلیاں تو کہیں بڑی بڑی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں جہاں مزدوروں کی محنت کو سراہا جاتا ہے ان سے رسمی  ہمدردی محبتیں دکھائی جاتی ہیں اور یونہی یہ  دن گزر جاتا ہے سوال یہ ہے کے کیا اسے ہمارے مزدوروں کو کوئی فائدہ ہوتا ہے ؟؟ کیا بڑی بڑی باتیں کرنا اور آرٹیکلز لکھنا کافی ہے ۔؟؟

جب ایک مزدور پچھلے چار دن سے بھوکا ہو کیا یہ درد بھرے الفاظ اور رسمی محبتیں اور ہمدردیاں تسلیاں  ہمارے آرٹیکلز ان کا  پیٹ بھر سکتی ہیں ؟

ہمارے مزدور آج بھی اس سوال میں الجھے ہوئے ہیں 

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ کہ کتابوں نے کیا دیا مجھ کو۔۔

 

جو انسان دو وقت کی روٹی کو دن بھر خون پسینہ بھائے 70 سالہ بوڑھا وہ غریب جب تمام دن اپنی کمر پر بلاک لاد کر دوسری منزل کی چھت تک لے جاتا ہے کیا ہمارے یہ ایک دن منانے لکھنے سے ان کے کندھوں سے یہ بوج ہلکا ہوگا ؟؟ 

وہی مزدور جن کی وجہ سے سر چھپانے کو یہ چھت ہمیں میسر ہے وہی مزدور جو خود دربدر ہے۔۔۔

اس شہر میں مزدور جیسا کوئی دربدر نہیں 

جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں

یوم مزدور کو کیسے گزارا جاۓ۔۔

ان کو اپنا حق دلا کر ان سے کم کام لے کر ان کو انسان سمجھ کر کیا فائدہ ایسی ہمدردی کا جب ہمارے مزدور اپنے ہی دن پر بھی کام پر جائیں اور اس دن وہ لوگ آرام فرمائیں جن کی چھٹی کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔۔

کسی مزدور سے پوچھا ٹریفک آج کم کیوں ہے 

 وہ بولا دن ہمارا ہے مگر مناتے کار والے ہیں

ہمارے مزدور اگر ایک دن بھی چھٹی کریں تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں جو اپنی دن بھر کی دہاڑی سے دو وقت کا کھانا اپنے بچوں کو دیتے ہیں اس دن کو منانے سے ہمارے مزدور مزید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں ایک دن بھی ان مزدوروں کا کتنا قیمتی ہے ان سے جا کے پوچھو جب ان کو کوئی مزدوری نہیں ملتی دن بھر روڈ پر بیٹھے تکتے ہیں کوئی کام مل جاۓ تو بچوں کا پیٹ پال سکیں اگر یہ چھٹی کریں تو  ان کا پیٹ ہماری ہمدردیاں نہیں بھریں گی ہاں اگر  سب مل کر یوم مزدور پر ان مزدوروں کو آرام دیں انہیں ان کے حقوق دلائیں ان کو بھی انسان مانے انہیں وہ ہر سہولت دیں جن کے یہ حقدار ہیں  اگر اس دن بھی مزدور کو اسکی دہاڑی مل جاۓ تب بنے گا لیبر ڈے فلحال یہ نام کا لیبر ڈے ہے اور کچھ نہیں  کیا ہی بات ہوتی جب ہمارے مزدور کو بھی انسان سمجھا جاتا ہمیں ان کی صحت ان کی جان کی کوئی پرواہ نہیں کتنے ہی مزدور بری حالت میں تپتی دھوپ میں بوج اٹھاۓ چلتے ہیں کچھ بیماری کی حالت میں مر جاتے ہیں مگر ان کے لیے کوئی سہولت نہیں۔۔۔

انٹر نیشنل لیبر آرگنائیزیشن کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کے لئے دیا گیا قانون (او ایس ایچ اے) جو مزدوروں کے استحصال کو تو نہیں بہر کیف جسمانی مشقت کے دوران مزدوروں کو جسمانی حفاظت کا چھوٹا سا حق دیتا ہے۔ اس قانون کے مطابق ہرریاست یا متعلقہ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو تمام حفاظتی سامان جو کام کرتے وقت ان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے مہیا کرنے کی پابند ہو گی۔ جیسے کہ حفاظتی ٹوپی، حفاطتی بوٹ، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی عینک اور کام کی نوعیت کے مطابق مختلف سامان حفاظت۔

ترقی یافتہ ممالک میں کسی حد تک اس قانون پر عمل بھی کیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک پاکستان میں نہ تو یہ قانون لاگو ہوا ہے نہ ہی دور دور تک کوئی آثار نظر آرہے ہیں یہاں غریبوں مزدوروں کی لاشیں اٹھنا معمول بن چکا ہے اور بے روزگاری تو ہمارے ملک میں عروج پر ہے۔۔

کمپنیاں اپنے منافع میں سے مزدوروں کی حفاظت پر خرچنے کو ترجیح ہی نہیں دیتی ان کو بس اپنی لالچ نے مار کھایا ہے ہمارے ملک میں ہمارے یہ غریب مزدور چکی میں پس رہے ہیں اور ہم چلیں ہیں منانے لیبر ڈے۔۔۔۔

اور اس دن میرا مزدور کہتا ہے۔۔۔

میرا پسینہ خریدنے والوں میرا خون بھی خرید لو 

کیونکہ آج یکم مئی ہے اور مجھے گھر کو سجانا ہے۔۔

بشکریہ اردو کالمز