541

   رمضان المبارک سیدالشہور کی آمدآمد مرحبا

رمضان المبارک کے روزے سن 2ہجری میں فرض ہوئے۔ یہ اسلامی سال کا نواں قمری مہینہ ہے ۔ اس کا تلفظ یوں ہے ، ر م ض تینوں مفتوع ( زبر کے ساتھ ) جبکہ الف ساکن ہے اس کے معنی شدید گرمی ، دھوپ کی شدت سے تپ جانے والی زمین یا پتھر ، نیزے کی نوک کو تیز کرنا اور گرمی کی شدت سے کسی کا جلنا وغیرہ کے ہیں ۔ ماہ رمضان اگرچہ ہمیشہ ایک ہی موسم یعنی گرمیوں میں نہیں آتا بلکہ چند سالوں کے بعد کبھی سردیوں میں تو کبھی متعدل موسم میں آتا ہے لیکن اس کا نام سخت گرمیوں کے زمانے میں رکھا گیا تھا اس لئے موسم کی تبدیلی کے باوجود اس کا نام ماہ رمضان ہی ہے ۔اس سال ماہ مبارک کے بابرکت مہینے کی ایسے وقت میں آمد آمدہے جب کہ دوسری جانب ساری دنیا کرونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہے اور لاک ڈاون کے باعث لوگوں اپنے اپنے گھروں میںمقید ہیں اس وقت پوری دنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ موجود نہیںجہاں لوگ اس سے محفوظ ہو۔بلکہ ہر طرف یہ بیماری اپنا پھن پھیلائے ،اور موت اپنے پنجے گاڑے ہوئے کھڑی نظرآتی ہے جو لوگوں کی لاچار ی اور بے بسی کا مذاق اڑانے کے ساتھ ہی بنی نوع کو اس کی اوقات یاد لا رہی ہے اور انسانوں میں رتبے کی تقسیم بندی ختم کردی ہے۔حضرت انسان جو پہلے بھی بڑے بڑے دعوئے کرچکا ہے اور مزید بھی انھیں دعووں یعنی سب سے زیادہ طاقت وار ہونے کا خوشمند ہے ؟ حالانکہ انسان بہت ہی خود غرض ہوتا ہے مایوس اور ناشکربھی ہے ۔ رب کائنات کی طرف سے کوئی بھی آزمائش آجائے تو فوراً نا امید ہوکر گلے شکوئے شروع کر دیتا ہے ۔لیکن جب وہی رب اس کو خوشیاں ،کامیابیوں سے نوازتا ہے تو یہی انسان ناشکری کرتا ہے ؟ کیوں یہ غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اس کو جو کامیابی ملی یا مل رہی ہے وہ اس کی محنت کا ثمر ہے خاص کرتب زیادہ جب اس کے پاس وہ سب کچھ آجائے جس کی اسے بہت زیادہ چاہ ہو یا جس کی وہ رات دن آرزو رکھتا ہو اور وہ ایسا خیال کرکے خود کو دھوکے میں ہی رکھتا ہے کیونکہ خوشی دینے والی تو صرف رب کی ذات ہے بس اے ناشکرے انسان تو کس پر اور کس لیے اکڑتا ہے ۔آنحضور ﷺ رمضان کی آمد کے پیش نظر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ، اے لوگوں تم پر ایک مہینہ ایسا آنے والا ہے جو بہت بڑا ،بہت مبارک اور بڑی فضیلت کا حامل ہوگا۔یہ سارے مہینوں سے افضل وبہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے افضل وبہتر ، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے افضل اور جس کی گھڑی دوسرے مہینوںکی گھڑیوں سے بہتر ہیں یہ وہی ماہ ہے جس میں باری تعالی نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اس کے تمام ہفتے تمام دن تمام راتیں اور تمام اوقات تسبیح اور عبادت کا درجہ پاتے ہیں ۔اس میں تمہارے تمام تر اعمال، دعائیں اور توبہ قبول فرمائی جاتی ہیں بشرطیکہ سچے دل سے کی جائیں تو ۔آپ نے فرمایااس رحمتوں، برکتوں ،مغفرتوںاور توبہ والے مہینہ کا استقبال کرنا ،اس کا انتظار کرنا کیونکہ ایسا کرنا مومن کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ایک عظیم نشانی ہے ۔کیونکہ رمضان کے مہینے کی آمد اللہ کی طرف سے رحمت ،مغفرت اور توبہ کاعلان ہے۔ جب رمضان کا چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے تو اللہ کے فرشتے اس کے حکم سے رحمتیں،برکتیں اورخزانے اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں کہ کون ہے وہ اللہ کا بندہ جو رحمت والے مہینے میں اپنے گناہ معاف کروائے گا ،اللہ کی رحمت کے انعامات پائے گا اور اپنے رب سے اپنی مرادیں ،دعائیں قبول کروائے گا ۔ ہر طرف رمضان کی خوشبو آنے لگتی ہے دل میں خوشی کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو ایک معزز مہمان کی آمدآمد ہوتی ہے جو سب کے لئے رحمتوں ،برکتوں،اور سعادتوں کے خزانے لے کر آرہا ہوتاہے انسان کو اس مبارک مہینے میں داخل ہونے سے پہلے قلبی تیاری بھی کرنی چاہے یعنی دل کو بھی پاکیزہ کرنا اس سے مراد گناہوں سے خود کو پاک کرنے کے لئے اپنے رب سے توبہ کرے اور اسی سے ہی دل پاک ہوتا ہے ۔ایسا کرنے سے میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نہ صرف اس کے گناہ معافرمائے گا بلکہ اس کے تمام گناہوں کو نیکیوں میںتبدیل کردے گا دوسرا یہ کہ رمضان مبارک کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام بھی کرنا چاہے یعنی چاند د کو ضروریکھنا چاہے یہ ثواب بھی ہے اور سنت رسول بھی اس کو دیکھنا انسان کے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔تو اس کو ضرور دیکھے اور جس گھڑی یہ چاند نظر آجائے اس پل اپنے اور میرے رب سے دعا کرے کیونکہ یہ گھڑی قبولیت کی گھڑیوں میں سے ایک گھڑی ہے اور ازسرنوں اللہ تعالی سے معافی مانگے مغرب سے عشاءکے درمیان صلوة حاجت پڑھے ،صلو ةتوبہ پڑھے ۔ صلوة حاجت اس بات کی کہ یااللہ رمضان کی رحمتوں برکتوں کا مجھ پر اور ساری کائنات پر جس کا تو خالق ہے نازول فرما اور اس کے تمام اوقات ہم سب کے لئے ایسے بنادے جیسے تجھے پسندہیں اور میرا شمار ان خوش نصیبوں میں فرما جن کو جہنم کی آگ سے خلاسی کے پروانے ملتے ہو اور جن پر تو راضی ہو گیا ۔ صلو ةتوبہ اس بات سے کرے کہ یا باری تعالی میرے جتنے اوقات غفلت میں گزارے اس رمضان سے پہلے میں سچے دل سے توبہ کرتا اور ان پر ندامت ہوں اے باری تعالی مجھے معا ف فرما بے شک تو غفورورحیم ہے ۔ اور اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے ۔اس لئے رمضان المبارک توبہ و استغفار ، رحمت ،بخشش و مغفرت ،دعاوں کی قبولیت اور اللہ کا خاص قرب حاص کرنے کا مہینہ ہے ۔ میری نظر میںتو یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور ہمیں اس موسم بہار کاضیائع نہیں کرنا چاہے بلکہ اس میںزیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کرکے اس سے مستعفد ہونا چاہے جس سے ذہنی وقلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے خواہشات نفس دب جاتی ہیں ۔ دل کا زنگ اترجاتا ہے انسان گناہوں ، خواہشات اور غیر اخلاقی باتوں سے بچ جاتا ہے روزے کی وجہ سے مساکین وغرباءسے ہمدردی ، پیار محبت پیدا ہوتی ہے رمضان المبارک ہی وہ مقدس مہینہ ہے ۔ جس میں اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس ماہ کو امت محمدیہ ﷺ کوبخشنے کا بہانہ اور ذریعہ بنایا ہے اس میں اللہ اپنے بندوںکے رزق میں بے پناہ ا ضافہ فرماتا ہے کل سے یہ مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے یہ دنیا فانی ہے ہر شے فنا ہونی ہے صرف ہمارے اعمال ہی اہمارے ساتھ جائے گئے آخرت میں ۔اللہ تعالی نے ہمیں زندگی میں ایک بار پھر بہترین موقع دیا ہے کہ ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکیں ۔اگر صاحب حیثیت ہیں تو مسکینوں، ضرورت مندوں،غربا ،مفلسین ،لاچار،مجبور،معذور،بے بس ،بے سہارا، بے آسرا پر مال خرچ کرے اور انھیں سحروافطار کروانے کا اہتمام کرکے اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کریں۔اللہ پاک ہم سب کوعمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔۔آمین 

بشکریہ اردو کالمز