434

*چلتے پھرتے ڈھانچے ہیں ہم* 

زندگی بہت خوبصورت ہے مگر ہم اس کو اس خوبصورت انداز میں جینے سے قاصر ہیں۔۔اپنے منفی خیالات منفی سوچ منفی باتوں میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا ہم کس قدر برائی کا رخ کر رہے ہیں اور زندگی کی خوبصورتی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔

کبھی کبھار سوچتی ہوں کے کیا تاریخ میں ہمیں برباد نا لکھا جاۓ ؟

مگر میں چاہتی ہوں کے لکھا جاۓ کیوں نا لکھا جاۓ کے یہاں جینا محال ہے صرف آپ کا یا میرا نہیں بلکہ ہم سب کا اور اس کی وجہ بھی ہم خود ہیں دیکھو برباد کرنے والے بھی ہم خود ہیں اور ہمیں ملال تک نہیں۔۔۔۔

ہم نے لوگوں کا اور لوگوں نے ہمارا جینا محال کر رکھا ہے اور اس حقیقت سے کوئی منہ موڑ نہیں سکتا۔۔۔۔

ہم میں سے کئی اچھے لوگ اچھائی کی طرف رخ نہیں کر سکتے کیوں ؟؟

کیونکہ ہم ایک ایسی قوم ہیں ہم اپنے ہی لوگوں کی اچھائی کو برائی کا نام دینے میں دیر نہیں کرتے ہمارے ارد گرد اگر کوئی نیکی بھی کرے تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیوں نا دیکھا جاۓ بھائی ؟؟

نیکی کرنے والے کی نیت ہی اپنی ہوتی ہے ہم تو نیکی کے ن کے نقطے سے بھی واقف نہیں ہم تو اچھائی کا روپ لیے منافق لوگ ہیں۔۔۔۔

ہم وہ لوگ ہیں کے جو کسی کے ساتھ تھوڑی سی بھلائی کرلیں تو ڈھنڈورا یوں پیٹتے ہیں جیسے آسمان زمین کو ایک کردیا ہو۔۔۔

گزرے روز اپنی بڑی کزن کے ساتھ بڑے اچھے موضوع پر بات کرنے کا شرف ملا  کہ بھائی لوگ ریت کے ذرے کو پھاڑ کیسے پیش کرتے ہیں۔۔۔

محترمہ فرماتی ہیں وہ میرے ٹیچنگ کا پہلا experience تھا پیپرز کے دن تھے بڑے جوش و جذبے سے کام کرتی رہی پیپرز چیک کرتی رہی وہاں کی کوئی سینئر ٹیچر آگئی ساتھ بیٹھتے ہوئے فرماتی ہیں کے لاؤ تمہاری مدد کردوں بڑی کوششوں منتوں کے بعد آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور پیپرز کچھ لیے چیک کرنے بیٹھ گئی 2،3 پیپرز چیک کرنے کے بعد وہ استانی تو اٹھ کھڑی ہوئی محترمہ کزن صاحبہ کہتی ہیں کے میں اپنے کام میں وہ 2، 3 پیپرز اٹھا کے دوبارہ مشغول ہوگئی اب ہوتا یوں ہے کے نیا نیا شوق پہلا experience جوش جذبے سے کام اور اس کا فائدہ یہ ہوا کے جلدی ہی میرے پیپرز چیک ہوگئے اور میں جمع کروانے آفس میں جا پہنچی........

اتفاق کچھ یوں ہوا کے اس دوران آفس میں میڈم کے ساتھ ساتھ وہ ٹیچر صاحبہ بھی موجود تھیں پیپرز جمع کروانے کا کہا تو میڈم حیرانگی اور خوشی سے میری تعریف کرنے لگی کے تم نے تو کمال کردیا اتنی جلدی پیپرز چیک کرلیے بڑی محنت کی ہے تم نے تو اب تک تعریف سنی ہی تھی خوشی کو محسوس ہی کرنے کو تھی کے ساتھ والی ٹیچر بول پڑی ارے اس کو تو پیپر میں نے چیک کر کے دیے اس نے کہاں اتنے کیے ہیں محترمہ کزن صاحبہ کہتی ہیں بہن تمہیں کیا بتاؤں کے میری تھکن اترنے کے بجاۓ بڑھ گئی کے یہ کیا ماجرا ہے بیچاری کہے بنا نا رہ پائی کہتی ہیں ارے آپ نے کیے تھے 2، 3 پیپرز چیک مگر وہ صاحبہ ماننے کو تیار نہیں کے تمہارے اتنا سارا کام تو میں نے ہی کیا چوں کے سینئر تھی وہ تو یقین اس پر ہی کیا گیا اور مجھے ڈانٹ کر بھیج دیا گیا اور میری محنت ؟؟چھوڑو !

ارے ہمارے پاس تو اتنی ہمت نہیں کے ہم کسی کی تعریف برداشت کر سکیں کسی کی کامیابی کو سہہ سکیں ہم تو ایسے لوگ ہیں اگر تنکا برابر بھی کسی کی مدد کر دیں تو اسے ایسے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اگلے کی محنت رائیگا۔۔۔۔نہیں نہیں محنت رائیگا نہیں سب لکھا جارہا ہے کندھے پر دو فرشتے ایسے ہی نہیں بیٹھے میرے دوست۔۔۔۔ لوگوں کا کریڈٹ لینا کون سی بڑی بات ہے اس کا بھی تو لو نا جو تمہاری شہ رگ سے بھی قریب تر ہے یوں نا ہو کے معملہ پلٹ جاۓ اور تمہاری کامیاب ناکامی میں بدل جاۓ۔۔۔۔۔۔۔

ہم بہت مجبور اور لاچار لوگ ہیں ایسے مجبور ایسے لاچار کے تمہیں کیا بتاؤں جب کوئی غلطی پر بھی ہو نا تو ہم سے یہ ہمت نہیں ہوتی کہ بھائی آگاہ کریں بلکہ ہم تو مزے سے ہنس کر اسے سراہ رہے ہوتے ہیں ہم ایسی قوم ہیں کے چونا لگانے کا موقع کبھی ہاتھ سے نا جانے دینگے اچھائی کو برائی کی شکل دینا سیکھنا ہے تو ہم سے سیکھیے صاحب۔۔۔

دو منٹ کی بات سے شروع کر کے اسے دنوں میں بدلتا دیکھنا ہے تو ہم سے سیکھیے کے دل میں چور لیے ہم کتنی میٹھی گفتگو کرتے ہیں اگلے کو بھنک تک نا پڑے کے بھائی یہ میٹھی گفتگو دراصل اندر کی گندگی چھپانے کو ہے۔۔۔۔

ہمیں بڑی تسکین ملتی ہے جب محفل میں بیٹھے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں دوسروں کے کردار پر باتیں کرتے ہیں دوسروں پر ہنستے ہیں اسے دنیا میں رسوا کرتے ہیں اور کوئی ہمیں رسوا کررہا ہوتا ہے اور کسی کو ہم بس یہی کام ہے اب ہمارا اب نا تو کوئی سکون سے جیتا ہے نا جلد ہی مرتا ہے کہ مرنے کا بھی تو وقت مقرر ہے مگر ہماری جہالت کا کوئی وقت ہی مقرر نہیں یہ تو ہر وقت ہم پر طاری رہتی ہے۔۔۔۔

جہنم کا نام بڑا سنا ہے سوچتی ہوں کہیں یہ دنیا ہی تو جہنم نہیں ؟؟

دنیا جہنم نہیں دنیا کو جہنم ہم نے بنا دیا ہے اور ہم خدا بن بیٹھے ہیں ایک دوسرے کے گھسیٹ رہے ہیں ایک دوسرے کو جہنم کی ایندھن میں۔۔۔

اب یہاں ہم سب خوف زدہ ہیں ایک دوسرے سے میں آپ سے آپ مجھ سے کوئی آپ سے اور کوئی مجھ سے ہم سب ڈرتے ہیں ایک دوسرے سے اور ہمارا یہ ڈر ہمیں اندر ہی اندر کہیں کھائے جارہا ہے ہم نے اس جملہ کو سر پر سوار کر رکھا ہے کے کچھ بھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتا اور اس کا ہم نے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ایک طرف اچھائی کر کے کہتے ہیں لو اچھائی کرلی اور دوسری طرف برائی کر کے کہتے ہیں nothing is perfect اور یہ ہماری nothing is perfect والی سوچ ہمیں اچھائی کے بعد برائی کرنے کی اجازت بھی دے رہی ہے۔۔۔

چیزیں پرفیکٹ کیوں نہیں ہو سکتی ؟؟

میرے محترم ٹیچر سر نعیم آسکانی صاحب نے کیا خوب کہا تھا کے نا کی کوئی تصویر نہیں ہوتی۔۔۔

تو کیسے کوئی چیز پرفیکٹ نہیں ہوسکتی کر سکتے ہیں آپ میں ہم سب لیکن وہی ہم مجبور لاچار لوگ ہیں ہم بھلائی اسلیے تھوڑی کرتے ہیں کے رب راضی ہو ہم بھلائی اسلیے کرتے ہیں کے جگ راضی ہو بھلائی کرنے کے بعد اس کو بتا بتا کے اس بھلائی کو ایسے پِیس دیتے ہیں کے وہ اس دنیا میں ہی پِس جاتی ہے رب تک پہنچتی ہی نہیں۔۔۔۔

اب سمجھ سے باہر ہے کے ہم یوں جیتے رہیں گے گھٹ گھٹ کے بڑے کام سر انجام دے رہے ہیں ہم دنیا کو چالانے کو مگر دنیا جن سے ہے وہ ان پر تو ہمارا دھیان ہی نہیں۔۔

کرو تعلیم پر تم کام کرو محنت بڑی تم دنیا چلانے کو مگر یہ دنیا انسان سے ہے اور اب نا تو انسان ہے باقی نا ہی انسانیت بس سب چلتے پھرتے ڈھانچے ہیں اب۔۔۔۔

دیکھتے دیکھتے ایسے ہی مٹی تلے دب جائیں گے ہم نا تم رہو گے نا ہم۔۔۔۔

اب۔۔۔۔۔

 *حل ہے تو کرو بیاں* ۔۔۔

 *نہیں تو رکھو بند اپنی زباں* ۔۔۔۔

بشکریہ اردو کالمز