تحریر ؛۔ جاویدایازخان بےروزگاری کے دن بڑے کڑے ہوتے ہیں ۔ہر انٹرویو اور ہر کوشش میں ناکامی انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلتی جاتی ہے ۔ایسے ہی کڑے لمحات میں بےروزگاروں کی دوستیاں بھی بڑی یادگار ہوتی ہیں ۔یہ آدھی صدی قبل کی بات ہے جب میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہی روزگار کی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی تھی ۔ہم بے روزگاروں کی ایک ٹولی جو چار دوستوں پر مشتمل تھی اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے "اللہ بخش "کے ہوٹل پر ایک کونے میں حکیم افتخار حسین اظہر کے مہمان ہو ا کرتے تھے جہاں ان کا ادھار بھی خوب چلتا تھا ۔اظہر صاحب اپنی مالی حیثیت کے مطابق چاۓ کا ایک کپ پلانے کے بہانے اپنی بےشمار نئی غزلیں سنا دیتے تھے یوں ہمیں ان کے تازہ کلام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے اپنی لگا تار ناکامیوں اور محرومیوں کا گلہ کرنے کا موقع بھی مل جاتا تھا ۔ہر روز ایک نیا پلان بناتے جو دوسرے ہی روز کسی نہ کسی وجہ سے چکنا چور ہو جاتا۔ایک روز نزدیکی چک کے رہائشی ایک مشہور پامسٹ اور پیشن گوئی کرنے والے سید شعیب شاہ صاحب بھی ہماری محفل میں شریک ہو گئے ۔ان کے بارۓ میں یہ مشہور تھا کہ وہ اپنے حساب کتاب سے مستقبل کی درست پیشن گوئیاں کرتے ہیں ۔وہ کہا کرتے تھے کہ ہاتھ ،ماتھے اور چہرۓ پڑھنے کا ہنر بڑا زبردست ہے لیکن اسے بتانا بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ہم صرف اچھی اچھی خوشخبری سننا چاہتے ہیں ۔الیکشن کا ہر امیدوار ہم سے صرف جیتنے کی پیشن گوئی سننا پسند کرتا ہے ۔ہم کسی کو شکست کے بارۓ میں نہیں بتا سکتے ۔ہماری مایوسی کی باتیں سن کر وہ کہنے لگے ذرا اپنے اپنے ہاتھ تو دکھاؤ ۔ہم سب کے ہاتھ دیکھ کر کہنے لگے یار تم تو سارے " خوش بخت " ہو ۔ہم نے حیرانگی سے پوچھا شاہ صاحب یہ بخت کیا ہوتا ہے ؟ تو وہ کہنے لگے دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن میں ایک تو " خوش بخت "ہوتے ہیں اور دوسرے" بدبخت " ہوتے ہیں ۔ہماری سمجھ میں بات آنہیں رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ؟پھر کہنے لگے " خوش بخت "اور "بدبخت "کے درمیان ایک چیز اور بھی ہوتی ہے جسے "وقت "کہتے ہیں ۔وہ بتانے لگے کہ نصیب اور قسمت والے یا بھاگ والے کو " خوش بخت "کہتے ہیں اور علم اورتربیت کو انسانی بخت کی کنجی کہا جاتا ہے کیونکہ تربیت اور علم ہی ہے جو "بخت " کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔بخت کی لکیر انسان کے ہاتھ میں پیدائشی موجود ہوتی ہے لیکن یہ "و قت "ہی ہوتا ہے جو اسےاپنی مرضی سے دنیا کے سامنے لاتا ہے ۔پھر کہنے لگے ہر انسان پیدائشی طور پر "بخت " ہی پیدا ہوتا ہے لیکن اسکی تربیت ،صحبت اور جہالت کی وجہ سے" وقت " اسے " خوش بخت "یا "بدبخت "بنا دیتا ہے ۔"بخت " کی لکیر "وقت " کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اسے بدلنے میں ہمارۓ اعمال بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔کم بخت ،بدبخت یا سیاہ بخت لوگوں کو بھی ان کی تربیت اور اعمال بناتے ہیں ۔دنیا اسے بدقسمت ،بد نصیب ،تقدیر کا پیٹا ،شامت کا مارا ،خانہ خراب ،شامت زدہ بھی کہتے ہیں ۔خوش بختی اور بد بختی کے اثرات ایک دوسرے پر بھی پڑتے ہیں ۔اسی لیے کبھی کبھی کوئی ایک شخص پورے خاندان کے لیے خوش بختی کی علامت بن جاتا ہے ۔یونہی کبھی کبھی ایک شخص پورے خاندان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ کبھی باپ کے مرنے سے بیٹے کے بخت جاگ اٹھتے ہیں تو کبھی بیٹے کے مرنے سے باپ کے بخت ختم ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہنشاہ بابر ایک خوش بخت انسان تھا وہ یتیمی سے نکل کر بادشاہ بن گیا ۔مگر اس کا بیٹا ہمایوں اپنی بدبختی کی باعث یہ سلطنت گنوا بیٹھا لیکن جونہی اکبر بادشاہ پیدا ہوا یہ سلطنت پھر سے مغلوں کی ہو گئی ۔دوسری جانب شیر شاہ سوری کی خوش بختی نے اسے ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا مگر اس کی اولاد نے سب کچھ گنوا دیا ۔کسی کی اولا د کی خوش بختی اسے بادشاہ بنا دیتی ہے جبکہ کسی اولاد کی وجہ سے بادشاہت چھن جاتی ہے ۔پھر شاہ صاحب نے ہماری طرف دیکھا اور کہنے لگے تمہاری خوش بختی میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن وقت ابھی تمہارا ساتھ نہیں دۓ رہا گویا تمہاری تربیت ،علم یا سوچ میں ابھی کچھ کمی ضرور ہے ۔اپنے بخت کے لیے وقت کو قریب لانے کی کوشش کرو ۔ہم نے پوچھا شاہ جی ! بخت اور تقدیر میں کیا فرق ہے ؟ تو کہنے لگے بخت اور تقدیر دونوں کا تعلق انسانی قسمت سے ہے مگر دونوں میں ایک باریک سا فرق ہے ۔بخت وہ ہے جو وقت اور دنیا دیتی ہے اور تقدیر وہ ہے جو رب عطا کرتا ہے اور جسے رب مل جاۓ اسے بخت کی ضرورت نہیں رہتی ۔بخت تو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے لیکن تقدیر اٹل ہوتی ہے ۔قدرت کے ساتھ ساتھ محنت ہی وقت اور بخت بدلنے میں ضروری ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ وقت اور بخت بڑی مشکل سے ساتھ چلتے ہیں کبھی "وقت "ہاتھ چھڑا لیتا ہے تو کبھی "بخت "اور اگر اتفاق سے دونوں مل جائیں تو ہی انسان خوش بخت بنتا ہے ۔کہتے ہیں کہ شہنشاہ غزل مہدی حسن بڑے عرصہ تک مختلف مزدوریاں کرتا رہا ۔وہ سایکل مرمت کیا کرتا تھا لیکن جب بخت اور وقت کا ملاپ ہوا تو اس کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگی ۔لنصرت فتح علی خان تقریبا" چالیس سال کی عمر میں انٹرنیشنل سطح پر مقبول ہو ا ۔ نصیبو لال کی آواز بھی چالیس سال بعد منظر عام پر آئی اور پسند کی گئی ۔یہ سب اس سے پہلے کہاں تھے ؟ ان ا میں ٹیلنٹ تو ہمیشہ سے موجود تھا لیکن وقت اور بخت مل نہیں پا رہے تھے ۔ان کی بے پناہ محنت نے آخر کار ان کا ملاپ کرادیا تو پوری دنیا چونک اٹھی ۔کھلاڑی ہو ،فنکار ہو ،ادیب ہو ،شاعر ہو ،اینکر ہو،سیاستدان ہو یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والا ہو وہ اپنی محنت سے جب بھی وقت اور بخت کا ملاپ کرادۓ وہ پوری دنیا کو چونکا دیتا ہے ۔ بےشمار اخبارات ،رسائل ا ،نیوز چینل پنی شہرت کی بلندیوں کو کھو کر گمنام ہو چکے ہیں ۔شاہ جی کے بقول قدرت ،محنت اور جہد مسلسل وقت اور بخت کا میل کراتے ہیں ۔آپکی عاجزی اور نیک نیتی کی باعث قدرت آپکے لیے بےشمار نادیدہ وسائل مہیا کر دیتی ہے جو عروج کا باعث بنتے ہیں ۔ایک ہی مارکیٹ میں ایک ہی چیز کی دکانیں ہوتی ہیں لیکن کسی دکان پر لوگوں کی قطاریں ہوتی ہیں اور باقی مکھیاں مارتے ہیں ۔سویٹ کی کسی ایک دوکان پر مٹھائی کے لیے گھنٹوں لائن میں لگنا پڑتا ہے لیکن باقی مٹھائی والے خالی بیٹھے ہوتے ہیں ۔جبکہ کوالٹی وہی ہوتی ہے ۔ایک ہی فیکڑی میں تیار ہونے والی اشیا کسی دوکان پر ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں اور کئی دکاندار گاہک کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں ۔ ایک ہی تعلیم اور قابلیت کے لوگ ملازمت شروع کرتے ہیں مگر ان میں سے چند ایک ہی بلندیوں کو چھو پاتے ہیں ہر کمیشن لینے والا فوجی افسر جنرل نہیں بنتا ۔ہر پولیس کا سپاہی تھانیدار نہیں بنتا ۔ایک کلاس میں کتنے ہی بچے ہوتے ہیں لیکن ہر ایک ڈاکٹر ،انجینیر ،افسر نہیں بنتا ۔بیشتر مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے ایک دوست اس بارے میں بات بڑھاتے ہوۓ کہتے ہیں کہ موبائل فون کی دنیا میں عروج کی بلندیا ں چھونے والی "نوکیا " جیسی انٹرنیشنل کمپنی وقت کے ساتھ نہ چل سکی اور اپنا بخت کھو بیٹھی ۔کامیابی اتنی ہی ملتی ہے جتنی آپ کوشش کرتے ہیں ۔ہم نے پوچھاکہ لوگ یکایک کیوں ہیرو سے زیرو ہوجاتے ہیں ؟ کسی کا عروج کسی کے زوال کا باعث کیوں بن جاتا ہے ؟ محمد علی کلے کی ہرجیت اس کو ہیرو اور اس کے مقابل کو زیرو کیوں کردیتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کسی کی خوش بختی تب ہی ممکن ہے کہ اس کے مقابل کا چراغ نہ جلے ۔ ہر فتح کسی کی شکست ہوتی ہے ۔آپ جب ہی جیتتے ہیں جب کوئی آپ سے ہارتا ہے ۔ جیت کا مطلب مقابل سے بہتر ہونا ہوتا ہے ۔اگر موبائل کی "نوکیا " کمپنی کو زوال نہ آتا تو " ایپل" اور "سامسنگ " کو عروج کیسے ملتا ؟ہم نے پوچھا بھائی ! خوش بختی کب اور کیوں انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ؟ وہ کہنے لگے وقت اور بخت کا ملاپ خوش بختی سے عاجزی کی باعث ہوتاہے ۔اور ان کی باہمی جدائی ،زوال اور بدبختی کا آغاز تکبر سے ہوتا ہے ۔بخت اور وقت کے درمیان فاصلوں کے بڑھنے کا آغاز تکبر اور بددیانیتی سے ہوتا ہے جو بخت اور وقت کے باہمی ملاپ کو ختم کر دیتا ہے ۔تکبر ،لالچ اور بددیانتی ہماری ساری محنت بھی ضائع کر دیتی ہے ۔ انسانی خوش بختی اور عروج عاجزی اور جدوجہد سے شروع ہوکر تکبر اور انا ء پر ختم ہوتا ہے ۔ذرا سی اجدوجہد کریں تو آپ بھی بخت اور وقت کے ملاپ سے خوش بخت لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔شرط صرف عاجزی،دیانتداری اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ صبر ہے۔ مگر ہمارے اباجی کہتے تھے کہ اگر عروج عطا ہو تو جب تک آپ کے ہاتھ سے خیر تقسیم ہوتی رہے آپ پر زوال نہیں آسکتا خیر کا مطلب مال ہی نہیں خشک پودوں کو پانی دینا ،شجر کاری ،ایک پلیٹ کھانا ،کچھ پیسے ،دکھ میں دلاسہ ،خوشی میں بلا حسد مبارکباد ، ایک مسکراہٹ ،پرندوں کو دانہ ،اور ان جیسی چھوٹی چھوٹی بےشمار باتیں جن کی بدولت لوگوں میں خوشیاں بانٹی جاسکیں ۔حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ' میں نے جب بھی کوئی ایسا بندہ دیکھا جس پر رب کا کرم تھا اسے عاجز پایا "
اشتہار
مقبول خبریں
پانی کا مستقبل یا مستقبل کا بحران؟
مہمان کالم
مہمان کالم
پاکستان میں انقلاب کے امکانات؟
مہمان کالم
مہمان کالم
