عالمی یوم صحت

”عالمی یوم صحت“ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”عالمی ادارہ صحت“ کے تعاون سے 1950ء سے ہر سال دنیا بھر میں 7 اپریل کو صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں صحت و امراض سے بچاؤ کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔ 1948ء میں یہی دن تھاجس روز عالمی ادارہ صحت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہر سال صحت کے کسی خاص موضوع کے تحت تمام دنیا کے ممالک اِس دن کو مناتے ہیں۔

 

وطن عزیز پاکستان میں صحت جیسی بنیادی سہولت سے محروم افراد کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے۔حکومت کی جانب سے اقدامات کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد علاج معالجے کی آسانی سستی اور معیاری سہولتوں سے محروم ہے ،عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس وقت تقریباً دنیا کی نصف آبادی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔افریقی ممالک میں یہ تناسب افسوسناک حد تک کم ہے۔ گزشتہ سال عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کیئے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ دنیا کی 12 فیصد آبادی اپنی کمائی اور گھریلو اخراجات کا دس فیصد بجٹ اپنے علاج و معالجے پر خرچ کرنے پر مجبور ہے، کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا کے دس کروڑ سے زائد افراد انتہائی غربت کے باوجود صحت کی سہولیات کے لیے اپنی آمدن کا بڑا حصہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں اب بھی لوگ اپنی جمع پونجی داؤ پہ لگا کر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔12فیصد آبادی مریضوں میں سے اکثریت مریضوں کو علاج معالجہ کےلیے ہسپتالوں کا رخ کرنے کے بجائے گھر میں دیسی دوا دارو اور ٹوٹکے آزمانے کوترجیح دیتی ہے۔سینہ میں پیوست دل کو چیرنے والی ایسی خبریں ملتی ہیں کہ اللہ کی امان،ایمبولینس نہ ملنے کی وجہ سے مریضوں نے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دےدی،ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی ایسی کہ ہسپتالوں کی سیڑھیوں پہ بچے کو جنم دینے کی خبریں اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بننا معمول بن چکا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی اگر بات کی جائے تو وہاں بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے مختص کیا جاتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں حکومت صحت کے لئے جو بجٹ مختص کرتی ہے اُس سے بہت بڑی آبادی صحت کی سہولیات سے مستفید نہیں ہو پاتی۔ادویات کی سستے داموں فراہمی ایک خواب ہی رہا ہے ۔عوام کے مسیحا کمپنیوں کے نمائندے بن کر کمیشن کے چکر میں عوام کی رہتی کثر نکال رہے ہیں۔سرکاری اسپتالوں میں قائم کیئے گئے ادویات کےسٹوروں سے اکثر مریضوں اور انکے لواحقین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ وہاں جان بچانے والی یا دیگر اہم ادویات دستیاب نہیں ہوتیں حالیہ دنوں میں صوبہ سندھ میں کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین دستیاب نہ ہونے کی خبریں گردش میں رہی ہیں۔ پاکستان میں معمولی چیک اپ کے بعد عوام کو بازار سے مہنگی ادویات خریدنی پڑتی ہیں اور ڈاکٹرز کی اکثریت چاہے وہ پرائیویٹ ہوں یا سرکاری اسپتالوں میں تعینات نسخے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات لکھ دیتے ہیں۔ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وجہ یہ کہہ کر بتائی جاتی ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ادویات میں استعمال ہونے والا خام مال اور پیکنگ میٹریل کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور مہنگی گیس بجلی سے انڈسٹری پر بوجھ بڑھا جس کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ،جیسے کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہمارے ہاں پہلے ہی مایوس کُن ہے اوپر سے مزید متوسط اور غریب طبقہ پر بجلی گرا دی گئی جس سے مہنگائی کی چکی میں پستے افراد کے لئے جینا ہی مشکل بنا دیا گیا عوامی سطح پر ابھی پہلے ہی بجلی ،گیس اور اس سے جڑی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا رونا رویا جارہا تھا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کو ایک اور جھٹکا لگا دیا گیا ،حکومت کو ادویات کی فراہمی سستی کرنے کے ساتھ اِنکے معیار کوبہتر بنانا انتہائی اہم ہے ،ایسا نہ ہو کہ متوسط غریب طبقہ جو پہلے ہی مہنگا ئی کی چکی میں پس رہا ہے اس کو غیر معیاری ادویات موت کے قریب لے جائیں یہ المیہ ہے کہ وطن عزیز میں راتوں رات امیر بننے کے چکر میں معاشرے کے ناسور ملاوٹ کرتے ہیں اور پھر اسی ناجائز دولت کے بل بوتے پر معزز بن کر عوام کی ہمددری کا ڈھونگ رچاتے ہیں حکومت وقت کو متوسط اور غریب عوام کے لئے فوری طور پر اقدامات کرتے ہوئے سرکاری اسپتالوں میں تمام ضروری ادویات کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول کے لئے واضح عملی اقدامات کرنا ہونگے ایسا نہیں ہونا ہیئے کہ دوچار دن میڈیا پر تو بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن بعدازاں عوام کو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائےگا۔

 

نوٹ۔عالمی یوم صحت کے موقع پہ اشاعت شدہ کالم کی معلومات مختلف اخبارات سے حاصل کی گئی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ آج