785

احساسِ اِنسانیت

حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں, ایک بار دمشق میں بہت سخت قحط پڑا. حالت یہ ہوگئی کہ ٹڈیوں نے سبزے کو اور انسانوں نے ٹڈیوں کو کھالیا. مخلوق خدا بھوک سے ہلاک ہونے لگی.
 
ایک دن میری ملاقات ایک ایسے دوست سے ہوئی جو بہت مال دار تھا. لیکن میں نے دیکھا وہ ویسا ہی پریشان حال اور کمزور نظر آرہا تھا جیسے شہر کے غریب غرباء. میں اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت حیران ہوا. اس سے پوچھا کہ بھائی! یہ میں تمہیں کس حالت میں دیکھ رہا ہوں ؟

وہ بولا, اے سعدی! کیا تم اس بات سے بے خبر ہوکہ قحط کے باعث مخلوق خدا تباہ ہوگئی ہے... ؟ میں نے کہا میں جانتا ہوں لیکن قحط کا تم پر کیا اثر پڑسکتا ہے. خدا کے فضل سے غنی ہو. بے شمار مال و متاع تمہارے پاس موجود ہے. 

شیخ سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر میرے دوست نے آہ بھری اور کہا اے سعدی! کسی حساس آدمی کے لیے یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ وہ اردگرد کے لوگوں کو بھول جائے اور صرف اپنی ذات پر نظر رکھے. کوئی شریف آدمی کسی کو دریا میں ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اطمینان سے ساحل پر کھڑا نہیں رہ سکتا. بے شک میں بھوک پیاس سے محفوظ ہوں لیکن دوسرے کے غم نے مجھے ہلاک کردیا ہے. اگر کسی کے عزیز قید کردیئے گئے ہوں تو وہ باغ و بہار میں مصروف نہیں رہ سکتا. 

حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ نے اس واقعے میں تمدن کا ایک بہت ہی اہم اصول بیان فرمایا ہے اور وہ ہے انبائے جنس کے دُکھ درد کو محسوس کرنا اور دُور کرنے کی کوششوں میں بھرپور حصہ لینا. 

غور کیا جائے کورونا وائرس کے ان حالات میں جہاں پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں ہے. غریب دیہاڑی دار طبقہ اس وقت کورونا وائرس کی بجائے بھوک و افلاس اور فاقہ کشی کی سنگین حالت اختیار کرچکا ہے. ہمارے معاشرے کا سفید پوش اور روزانہ کی اُجرت پر کمانے والا طبقہ بھوک کی موت مررہا ہے. 

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا میں 25 ملین لوگوں کے بے روزگار ہونے کا عندیہ پیش کیا گیا ہے جبکہ 35 ملین مزید لوگ غربت کی صف میں داخل ہوجائیں گے.جب بین الاقوامی معاشی صورتحال کا یہ حال ہے تو پاکستان کی معیشت اور غریب, مزدور دیہاڑی دار طبقے کا اندازہ ہر ذی شعور پاکستانی بخوبی لگا سکتا یے. 

آج کی اس مشکل گھڑی میں ہمیں اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں مگن ہونے کی بجائے بھوک و افلاس کے مارے اس طبقے کا احساس کرنا چاہیئے جو آج دو وقت کی روٹی اور شیرخوار بچوں کے لیئے دودھ تک لینے کو پریشان ہیں. گوکہ ہم بھوک و پیاس سے محفوظ ہیں مگر ہمیں احساس انسانیت کے اس مادے کو جگانا ہوگا.ہمیں انبائے جنس کے دُکھ درد کو محسوس کرنا ہوگا. ہمیں انسان ذات کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر حتی الامکان کوششیں کرنی ہوں گی.تبھی ہم ایک شریف و احساس انسانیت رکھنے والا انسان کہلائیں گے.
 
میری تمام قارئین سے گزارش ہیکہ اپنے اردگرد غریب غرباء کا خیال رکھیں اور جتنا ممکن ہوسکے ان کے ساتھ اس وباء کے ان مشکل حالات میں تعاون کریں. تاکہ کسی غریب کا چولہا بجھنے نا پائے. بھوک و فاقے کی وجہ سے اموات کا سلسلہ رُک جائے. اللہ پاک ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق کے ساتھ احساس انسانیت عطا کرے آمین.

بشکریہ اردو کالمز