تحریر: میاں اسامہ صادق
ڈیپریشن اور انزائٹی انسان کو اندر ہی اندر ختم کرتے رہتے ہیں۔ اور نوبت زندگی کہ خاتمے تک آجاتی ہے۔ یہ بھی باقی بیماریوں کی طرح ہی ایک بیماری ہی ہے، جب ہم لاپرواہی کرتے ہیں تو اسکے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ اینگزائیٹی کے معنی ہیں حد سے بڑھی ہوئی پریشانی، تشویش، اضطراب، گھبراہٹ، یا بے چینی جبکہ ڈپریشن کے لئے اداسی یا افسردگی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ڈپریشن کا تعلق عام طور پر کسی گزرے ہوئے واقعے سے ہوتا ہے جبکہ اینگزائیٹی کا سبب کوئی موجودہ یا آنے والا واقعہ بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی امتحان یا انٹرویو سے پہلے جو کیفیت ہوتی ہے، وہ انزائیٹی کی نمائندہ ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں جو احساسات ہوتے ہیں وہ اگر مستقل صورت اختیار کر لیں تو آدمی ڈپریشن کی طرف چلا جاتا ہے۔ اب کچھ لوگ یہاں کہیں گے کہ نماز پڑھنے سے پریشانی نہیں ہوتی۔۔ او اللہ کے بندو ! نماز کا ڈیپریشن اور انزائٹی سے کیا لینا دینا ؟ اگر سب کچھ نماز پہ ہی چھوڑ دیا جاتا تو مولانا طارق جمیل صاحب کا بیٹا خود کشی کبھی نا کرتا۔ کیا نماز پڑھنے والے کو بخار نہیں ہوتا ؟ کیا نماز پڑھنے والے کو کینسر ، شوگر ، ٹی بی ، نزلہ زکام ساینس اور دوسری بیماریاں نہیں ہوتی کیا ؟ اسی طرح ڈپریشن اور انزائٹی بھی ایک بیماری ہی ہے اور گزشتہ و موجودہ حالات و واقعات کی وجہ سے اور مستقبل کے خوف کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے سب کچھ نماز کہ اوپر چھوڑ دینا غلط بات ہے۔ بیشک نماز دلوں کا سکون ہے اور بہت بیماریوں کا علاج ہے۔ مگر یہ ایسی بیماری ہے جہاں دینی علاج کے ساتھ ساتھ دنیاوی علاج بہت ضروری ہے۔۔ اس لیے اگر آپ کو یا آپکے بچوں کو ڈیپریشن یا انزائٹی ہو تو ڈریں مت۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کریں اپنا علاج کروائیں ۔ وہاں جانے میں شرمندگی مت محسوس کریں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اسکا دماغ ٹھیک نہیں جو ماہر نفسیات کے پاس گیا ہے۔
انسان کو کئی قسم کی پریشانیاں ہوتی ہیں، جیسے کسی کو بہنوں کی شادی کروانی ہے تو کسی کا مکان نہیں بن رہا۔ کسی کی ماں بیمار ہے تو کسی کو نوکری نہیں مل رہی، کسی کی پسند کی شادی نہیں ہو رہی تو کسی کی اپنی بیوی/شوہر کے ساتھ بن نہیں رہی۔ کسی کو مستقبل کی فکر ہے تو کسی کو ماضی میں کسی نے ہراساں کیا ہے ، کسی سے جنسی زیادتی ہوئی ہے تو کسی کو بار بار جھنجھوڑا گیا ہے، کسی نے مکان کا کرایہ دینا ہے تو کسی نے گاڑی کی قسط دینی ہے۔ یہ سب پریشانیاں انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ ان سب میں سب سے بڑی وجہ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ بچوں کو قریبی رشتہ دار ہراساں کرتے ہیں۔ غلط غلط جگہ ہاتھ لگانے اور اور آہستہ آہستہ انہیں اپنی درندگی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ بچے کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہوتی کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے۔ نا بچے کے والدین اس بات کو نوٹس کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار پہ بھروسہ ہی اتنا کرتے ہیں کہ انہیں شک نہیں ہوتا۔ اسی لیے بچے کو کبھی زیادہ وقت کیلئے کسی کے پاس نا رہنے دیں۔ کسی کی گود میں نا رہنے دیں۔ سکول مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں بچوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سکول کے مالی اور چوکیدار تک بچوں کو عزت تار تار کر دیتے ہیں اور والدین کو بھنک تک نہیں لگتی۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جب تک کہ سکول ختم نہیں ہوتا۔ اب وہ بچہ جسنے 3 سال یا 5 سال یہ سب برداشت کیا ہوتا ہے۔ وہ معصوم بچہ ڈر جاتا ہے۔ لوگوں سے ملتا نہیں ہے۔ پریشان ڈرا سہمہ رہتا ہے۔ اور بڑا ہونے کے بعد بھی وہ اس درد سے چھٹکارا نہیں حاصل کرتا۔ اور پھر بات خودکشی یا نشے تک چلی جاتی ہے۔ والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ انکی اولاد کے ساتھ کیا چل رہا ہے۔ انکے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ آپکا بچہ چڑچڑا ہوگیا ہے تو آپ سے مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں ، اس سے وجہ جاننے کی کوشش تو کوئی نہیں کرتا۔ جب آپکی نوجوان اولاد چڑچڑی ہو جاتی ہے تو آپ اس سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے پوچھتے تو نہیں کہ بیٹا کیا مسئلہ ہے تمہیں۔ آو بیٹھو مسئلہ حل کرتے ہیں۔
آپ اپنے والدین کو بلا وجہ اور بے مقصد چیزوں کیلیے تنگ کرنا بند کر دیں۔ آجکل کی نوجوان نسل اپنی بے جا خواہشات کیلیے اپنے والدین کو تنگ کرتی ہے ہے، کسی کو مہنگا موبائل چاہیے تو کسی کو مہنگی موٹر سائیکل ، کسی کو گیمنگ کیلیے اچھا کمپیوٹر چاہیے تو کسی کو اچھا لیپ ٹاپ۔ اور یہ چیزیں نا ملنے پہ والدین کو ایسی کھری کھوٹی باتیں سنائی جاتی ہیں کہ والدین دلبراشتہ ہو جاتے ہیں۔ والدین کو کبھی بھی پریشانی میں مبتلا مت کیا کریں ۔ آجکل کے دور میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا ہی بہت جہدوجہد کا کام ہے تو پھر وہ آپکی فضول خواہشات کو کیسے پورا کریں۔۔ خدارا اپنے والدین کو جینے کے قابل رہنے دیں۔ بلا وجہ انہیں ڈپریشن میں مبتلا مت کریں۔
اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔ اگر کوئی ڈپریشن کا انزائٹی کا شکار ہو تو اسکا بر وقت علاج کروائیں ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ابھی اتنا شعور نہیں آیا۔ ابھی ڈیپریشن کے مرض کو جنات کا سایہ سمجھا جاتا ہے۔ اور سے ڈھونگی بابے اور پیر فقیر مہر لگا دیتے ہیں کہ اسکے کالے جادو کا اثر ہے۔ وہ اپنی پیسوں کی خاطر الٹے سیدھے علاج کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے کسی ڈھونگی کے چکروں میں مت آئیں۔ اچھے ماہر نفسیات سے علاج کروائیں۔ اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھیں۔ اپنی پریشانیاں انہیں بتائیں۔ مل بیٹھ کے مسائل کا حل نکالیں۔۔ اللہ پاک سب کے کیلیے آسانیاں پیدا فرمائیں ۔
