جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے، تو تاریخی عمل کو سمجھنے والے اس وقت بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ تباہی کے آخری لمحے تک پہنچنے میں بھی ابھی متعدد نسلیں باقی ہیں، جنھیں اس شدید بحرانی دور سے اپنی زندگیاں نچوڑ کر گزارنی ہیں۔ رومی سلطنت جس عظمت کی بلندی پر فائز رہی ہے، ریاستِ پاکستان اس کے بارے میں خیال، احاطہ سوچ میں بھی نہیں لا سکتی۔ لیکن رومی سلطنت کے زوال کے عناصر پوری طرح یہاں دیکھے جا سکتے ہیں، یہ مسلسل اپنی شکل بدلتی تاریخ کا ہماری موجودہ زندگی میں ایک عجیب مظہر ہے، جسے ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ، ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے اس نے ہمارے تصور میں ہمیں ہماری نام نہاد قومی حیثیت عظیم رومی سلطنت جیسی باور کرائی ہے۔ ہم جب بھی پاکستانی اور ایک نیشن پر مبنی شناخت کا خیال ذہن میں لاتے ہیں، ایک پر شکوہ تصور سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ یہ تصور آنکھوں پر بندھی پٹی کی طرح کام کرتا ہے، کہ پون صدی کی ننھی اور مسلسل زوال پذیر تاریخ کی تاریخی حقیقت مکمل طور پر اوجھل ہو جاتی ہے۔
اس کا پہلا اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم قومی تشکیل کے پہلے ہی دن سے اپنی مسلسل زوال آمادہ حالت کو دیکھنے اور سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکے۔ نہ اس حقیقت کو سمجھ سکے کہ بطور قوم ہمارے مکمل انہدام کو پہلے ہی دن سے مصنوعی طریقوں سے روکا جاتا رہا ہے۔ ہم تاریخی عمل میں اس ریاست کی تشکیل کو ”مصنوعی تشکیل“ نہیں کہہ سکتے، لیکن کسی بھی ریاست کی بقا کے لیے پہلے ہی دن سے ٹھوس اور حقیقی اقدامات اور پالیسیوں کی تشکیل ناگزیر ہوتی ہے۔ تاکہ تاریخی عمل میں اپنے وجود کو برقرار رکھا جا سکے اور تاریخ میں ایک ریاست کی تشکیل کو ناکام تجربے کے طور پر بیان ہونے سے روکا جا سکے۔
ہم اس ریاستی تشکیل میں ایک اور طرح کی کشمکش سے گزرتے آ رہے ہیں۔ جس قسم کی طبقاتی کشمکش کسی ریاست اور سلطنت کے زوال کے آخری دنوں میں رونما ہوتی ہے، بد قسمتی سے ہم اسی کشمکش سے تشکیل کے ابتدائی دنوں میں دوچار ہیں۔ ہماری ریاست کے حکمرانوں، امیروں اور جرنیلوں کا رویہ کسی عظیم سلطنت کے حکمرانوں، امرا اور جرنیلوں کی مانند ہے۔ اور ایسی سلطنت کے، جو تاریخ میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہو۔ یہ بالا دست طبقہ مکمل اجنبیت کے ساتھ عوام کو پیستا جا رہا ہے۔ وردی پوش کے سامنے بلڈی سویلینز ہیں، تو سادہ پوش کے سامنے کیڑے مکوڑے۔ آج کے دور میں ڈھائی تین صدی پرانا یہ رویہ کتنا حماقت آمیز اور شرم ناک ہے، اسے سمجھنے کے لیے صرف اس ایک سماجی حقیقت پر نظر ڈالی جائے کہ جب اسی مغرور اور ظالم بالا دست ٹولے کا کوئی فرد جدید دنیا کے کسی ملک میں غیر سرکاری حیثیت سے جاتا ہے تو وہاں راہ چلتے کوئی بھی اسے ٹرول کر سکتا ہے، اور وہ اس وقت بے بسی کی شرم ناک تصویر بنا رہتا ہے۔
اس سوال سے کہ، بالا دست ٹولا ریاست کی تشکیل کے آغاز ہی میں ایسا کیوں کر رہا ہے؟ کہیں زیادہ اہم اور ایڈوانس سوال یہ ہے کہ اس ٹولے نے جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونے کے لیے خود کو جاگیر دارانہ سوچ سے جدید نیشن اسٹیٹ کے عمّال میں کیوں نہیں بدلا؟ ان کے سامنے تو ایک فلاحی ریاست کا تصور بھی موجود تھا، پھر آغاز ہی سے انھوں نے عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھنے کی ”حکمت عملی“ کیوں اپنا لی؟ بطور وفاق عوام کے سامنے یہ نازک سوال مجسم موجود ہو یا نہ ہو، انھیں اجتماعی طور پر اس کا باقاعدہ شعور ہو یا نہ ہو، یعنی وہ اس پر غور و خوض کرتے ہوں یا نہ ہوں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ زوال آمادہ سلطنتوں کے رویے یہاں اپنا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ بالا دست ٹولے نے اپنی سوچ اور نفسیات بدلنے کے لیے کوئی ڈاکٹرائن تشکیل نہیں دیا، بلکہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے چلنے والی چالوں اور پینتروں میں ایک ذرا سے رد و بدل کے ساتھ ابتدائی جاگیر دارانہ نو آبادیاتی نفسیات ہی کو تقویت بخشی۔
آج یہ رویہ سماج میں اتنی اجنبیت پیدا کر چکا ہے کہ نہ تو عوام اپنی گفتگو میں ریاست کے انہدام کے آخری لمحے کی پروا کرتے دکھائی دیتے ہیں، نہ خود بالا دست ٹولے کا طرز عمل اس کی پروا کرتا نظر آتا ہے، اس لیے ان میں سے ہر ایک اپنا دوسرا ٹھکانا ملک سے باہر ہی بناتا ہے۔
انسان اپنی جبلت میں اپنے وجودی خاتمے اور فکری زوال کو تسلیم کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوتا۔ اس قضیے میں لمحہ موجود کا جبر بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی اگر ایسے آثار نہیں ہیں کہ میں اپنی پوری زندگی میں مکمل اجتماعی وجودی خاتمے کے آخری لمحے کا شاہد نہیں بن سکتا، تو اس خاتمے کی حقیقی صورت حال اور نوعیت کو سمجھنا بھی میرے لیے ناممکن ہے۔ اگر دنیا تباہ ہونے والی ہے تو ایسی متعدد نسلیں ہوں گی جو درجہ بہ درجہ اس تباہی کے زیادہ قریب ہوں گی اور جو جتنی زیادہ قریب ہوں گی، اتنا ہی زیادہ اس کے لیے تباہی کا عمل ”فطری“ ہو گا، جب کہ زیادہ دور نسلوں کو اس پر یقین زیادہ مشکل ہو گا۔ انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی ابتدائی نسلوں کے جذبات اور نعرے اپنی جگہ لیکن وہ 1947 کے ماہ اگست میں موجود نسل کے ’زیادہ سے زیادہ حقیقی تجربے‘ کا تصور نہیں کر سکتے تھے، نہ ہی آزادی دیکھنے والے، اس کی ابتدا کرنے والی نسل کے جذبات کی حقیقی نوعیت کو سمجھ سکتے تھے۔ آج ہم اپنی ریاستی تاریخ کی ایسی ہی ایک کیفیت سے دوچار ہیں۔
ہم کسی بھی سطح پر انہدامی لمحے کو تصور نہیں کر پا رہے لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگلی نسل اس سے زیادہ قریب ہوگی۔ تاریخ چونکہ ہم انسانوں ہی سے جنم لیتی ہے، ہم ہی اس کی تشکیل کرتے ہیں، اس لیے اس کا دھارا موڑنے کا امکان بھی اتنا ہی موجود ہوتا ہے جتنا کہ فطرت میں انسان کی بقا کا امکان۔ لیکن ہماری زمینی حقیقت کی مشکل یہ ہے کہ بالا دست ٹولا دماغی طور کے بونوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ان انٹلکچوئل ڈوارفس (فکری بونوں) کی تاریخ بہت مایوس کن ہے۔ یہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے پوری طرح محروم ہیں، اس لیے ایک ہی نسل میں بار بار ماضی ہی سے نظیر لے کر کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں۔ سیاسی نظریے کے طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک کاپی پیسٹ سیاسی نظریے والی ریاست بنی ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کی پر امید گفتگو سن کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تاریخ بھلا ایسی ریاست کے ساتھ ہماری تمنا کے مطابق سلوک کیوں کرے گی۔ تاریخ کو جب بھی اپنا رخ خود متعین کرنے دیا جاتا ہے تو اس کا پہلا قدم زوال ہی کی طرف اٹھتا ہے، کجا آپ پہلے ہی زوال کے ڈینجر زون میں داخل ہو چکے ہوں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ پیدائشی طور پر ہی ڈینجر زون میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہوں تو آپ کی تمناؤں کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے!
عموماً، ریاستوں کی پیدائش ان کی تاریخ کے ڈینجر زون میں نہیں ہوتی۔ کسی بھی نوزائیدہ ریاست کو باہر سے فنا کا خطرہ ہو سکتا ہے، لیکن اندر سے تاریخی طور پر اس کا وجود عام طور سے اپنے لیے امید افزا ہی ہوتا ہے۔ ابتدائی عشروں ہی میں بنگلادیش کی صورت میں علیحدہ ملک کی تشکیل ایسا تاریخی اشارہ تھا کہ ریاست کی تشکیل تاریخی طور پر ڈینجر زون میں ہوئی ہے، لیکن بالا دست طبقے نے اسے بہت ہی گھمنڈ کے ساتھ دیکھا۔ اسی بنگلادیش میں حکمرانوں کے خلاف حالیہ عوامی رد عمل اپنی من پسند تاریخ کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن یہ قدم پاکستان میں ممکن نہیں ہونے دیا گیا ہے۔ اس سے بالا دست ٹولے کی، سماج پر سخت گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس بات کا بھی کہ یہاں نام نہاد عوامی سیاسی تحریکیں کتنی کنٹرولڈ ہوتی ہیں۔ اس کامیابی سے حکمران طبقے کے گھمنڈ میں اضافہ ہونا بالکل ”فطری“ ہے۔ اس کا نقصان تاریخ میں اس ریاست کی زندگی میں مزید کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
جس طرح سلطنت ختم ہو جاتی ہے لیکن قوم موجود ہوتی ہے، پاکستان جیسی ریاست کا معاملہ اس سے پیچیدہ ہے۔ اس کی تشکیل نسلی اور قومی کی بجائے مذہبی اکائی کی سیاسی اور معاشی نوعیت پر ہوئی ہے۔ چنانچہ اس کی بقا کا سارا دار و مدار بھی ان ہی تین عناصر کی بنیاد پر ممکن تھا، اور یہ تینوں عناصر محض بالا دست ٹولے کو طاقت میں برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوئے۔ یعنی انہدام کے آخری لمحے میں یہ عناصر خود بہ خود غیر متعلقہ ہو جانے ہیں، اور اس کے آثار اتنے واضح ہیں کہ انکار کی جرات کسی فاتر العقل ہی کو ہو سکتی ہے۔ اس ریاست کا لسانی طور پر مختلف اقوام میں بٹا ہونا اسے کسی بھی بیرونی دشمن کے لیے خود بہ خود خطرے سے دوچار بناتا ہے لیکن حیرت ناک امر یہ ہے کہ اس کمزوری کو باہر کے کسی دشمن نہیں بلکہ اندر ہی بالا دست ٹولے نے استعمال کیا، اور تاریخ کے ڈینجر زون میں اس کی پیدائش کو اور زیادہ خطرے سے دوچار کیا۔
اگر کسی کا یہ ایمان ہو کہ امریکہ مستقبل میں بھی اسی طرح برقرار رہے گا تو وہ ابھی پیدا ہوا ہے، اور ابھی اس نے انسان کی تشکیل کردہ تاریخ نہیں پڑھی۔ انسانی تاریخ میں بڑی بڑی سلطنتیں مٹ چکی ہیں، غائب ہوئی ریاستوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ جو چیلنجز درپیش ہیں، ریاست نے ان کا کوئی موثر جواب تو درکنار، ایک اور خود دشمنی پر مبنی عجیب رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ یہ ایک چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک اور، اس سے زیادہ خطرناک چیلنج کھڑا کر دیتی ہے۔ اور ان چیلنجز کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر رکھا جاتا ہے۔ اس سے ان کے اندر سرد مہری کے جذبات مستحکم ہونے لگے ہیں، وہ جذبات جو ریاست کو خطرے میں دیکھ کر لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ عوام میں آج لسانی سطح پر صوبائی خود مختاری کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کے استحکام کا راستہ صرف یہ رہ گیا ہے کہ بالا دست ٹولا اپنا ذہن بدل لے، نو آبادیاتی یادگار کی نفسیاتی حالت سے نکال کر خود کو جدید سوچ کا حامل بنائے، اور سماج کو ہر سطح پر آگے بڑھنے کا راستہ دے۔