جان کی امان پاتے ہوئے سرکار مائی باپ کی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ عمران خان اب سیاستدان کا نام نہیں رہا۔ اپنے تئیں ایک بحران کا عنوان بن چکا ہے جس سے بچاﺅ کی صورت ہمارے مائی باپ ڈھونڈنے میں قطعاً ناکام ہو رہے ہیں۔
میری بات پر اعتبار نہیں تو راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم اپنے دوستوں اور عزیزوں سے رابطہ کیجیے۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کے قریبی جاننے والوں میں سے کسی ایک کی بیٹی یا بیٹے کی شادی رواں ہفتے کے آخری دنوں میں ہو رہی ہے اور وہ اس حوالے سے خوشی محسوس کرنے کے بجائے بہت پریشان ہیں۔ اس ضمن میں دوگھرانوں کا احوال میرے ذاتی علم میں ہے۔ ان دونوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی بیٹیوں کی رخصتی کے لیے انھوں نے 24 نومبر کے دن جو شادی ہال بک کروا رکھا ہے اس روز وہاں تک رسائی ممکن ہو گی یا نہیں۔ ان میں سے ایک گھرانے نے مذکورہ تقریب کے لیے 500 مہمانوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ بدھ کی رات ان میں سے آدھے لوگوں نے یہ کہتے ہوئے شرکت سے معذرت کرلی کہ اسلام آباد میں ایک بار پھر پولیس نے کنٹینر لگانا شروع کر دیے ہیں۔ مقصد ان کا عاشقانِ عمران کو پاکستان کے دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ جو کنٹینر آج سے چند ہی ہفتے قبل اسی مقصد کی خاطر لگائے تھے ان کے ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف کے نوجوانوں کی ایک مو¿ثر تعداد رکاوٹیں توڑ کر اسلام آباد کے ریڈزون پہنچ گئی تھی۔ دو سے زیادہ گھنٹوں تک پارلیمان اور سپریم کورٹ کے عین سامنے والی شاہراہ پر وہ پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا مقابلہ کرتے رہے۔ کنٹینر ان کو وہاں پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہے۔
کنٹینر لگائے جانے سے مگر اسلام آباد کے باسیوں کو اپنے گھر سے نکل کر دفتر اور دوکانوں تک بروقت پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دس منٹ کا راستہ کم از کم ایک گھنٹے تک پھیل جاتا ہے۔ دفاتر اور دوکانوں تک رسائی میں دِقتوں کے علاوہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا ارادہ سماجی نوعیت کے چند اہم معاملات کے حوالے سے بھی بے تحاشا پریشانیوں کا باعث ہوتا ہے۔ بچوں کی شادیاں اس ضمن میں اہم ترین ہیں۔ کسی بھی خاندان کے لیے یہ ایک اہم ترین فریضہ ہے جسے ادا کرتے ہوئے وہ اس حوالے سے ہوئی تقاریب کو اپنی بساط کے مطابق شاندار و یادگار بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے تیاریاں کئی ہفتے قبل شروع ہو جاتی ہیں۔ ڈھولکی، مایوں اور مہندی کی تقریبات کے باوجود ا ہم ترین دن مگر بارات کی آمد اور بیٹی کی رخصتی ہے۔ کنٹینروں کی مدد سے ناقابل تسخیر بنائے اسلام آباد میں اس اہم ترین تقریب کے بارے میں آخری لمحات تک غیر یقینی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔
چند ہفتے قبل جب علی امین گنڈا پور کو خیبرپختونخوا سے لشکر لے کر اسلام آباد آنا تھا تو میرے بھائیوں سے بھی زیادہ قریب دوست افتخار گیلانی کی بیٹی کی شادی تھی۔ افتخار گیلانی نہایت محنتی اور دیانتدار صحافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مستند اور کثیر الاشاعت انگریزی اخبار کے نمائندے کی حیثیت سے برسوں دلی میں اس کے نمائندے کی حیثیت سے مقیم رہا۔ تاریخ ساز حریت پسند رہ نما سید علی گیلانی صاحب کا داماد ہے۔ اس رشتے کی وجہ سے اس کے لیے بھارت میں رہ کر صحافت جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ خوش قسمتی سے انقرہ میں ترکیہ کی نیوز ایجنسی میں فقط میرٹ کی بنیاد پر نوکری مل گئی۔ اس کی ہونہار بیٹی نے پاکستان میں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی ہے اور پاکستان ہی میں خوش بختی سے شادی کا بندوبست بھی ہو گیا۔
اپنی بیٹی کی شادی کے لیے افتخار اکتوبر کے پہلے ہفتے رات گئے انقرہ سے بذریعہ دوحہ اسلام آباد ایئرپورٹ آیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد اسے پتا چلا کہ تحریک انصاف مارچ کی صورت اسلام آباد آ رہی ہے۔ مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد میں داخلے کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اسے جہاں ٹھہرنا تھا وہ مقام ایئرپورٹ سے تقریباً 20 منٹ کی مسافت پر تھا۔ وہاں لے جانے کے لیے مگر ٹیکسیاں موجود نہیں تھیں۔ رات کے اندھیرے میں ایک ٹیکسی والا البتہ کسی کونے میں موجود تھا۔ وہ ’چور راستوں‘ سے افتخار کو منزل مقصود تک پہنچانے کو رضا مند ہو گیا۔ منزل مقصود تک پہنچنے میں تاہم اسے ساڑھے تین گھنٹے لگے۔
آخری لمحات تک افتخار کو یہ دھڑکا لگا رہا کہ اس کی بیٹی کے نکاح اور رخصتی کی تقریب کے لیے اسلام آباد کے شاہ اللہ دتہ کے قریب جو ریستوران بک کروایا گیا ہے وہاں بارات آ بھی سکے گی یا نہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا گزرے گی۔ خوش نصیبی سے اس دن اسلام آباد کے چند راستے کھلے رہے۔ مہمان کسی نہ کسی طرح بالآخر تقریب میں پہنچ ہی گئے۔ افتخار کی پریشانی نے مجھے پہلی بار احساس دلایا کہ اسلام آباد پر دھاوے کے ارادے اور اسے روکنے کے لیے حکومتی بندوبست کئی والدین کے لیے کس نوعیت کے جذباتی مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔ اس کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی میں ان دو گھرانوں کی پریشانی کو نہایت شدت سے محسوس کررہا ہوں جن کی بیٹیاں 24 نومبر کے دن رخصت ہونا ہیں۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ 24 نومبر کا دن ان کے لیے آسانیاں لائے۔
اسلام آباد کو کنٹینروں سے محفوظ بناتی سرکار کو مگر سوچنا ہوگا کہ سال میں کتنی بارہ وہ اس شہر کو عاشقانِ عمران کے دھاوے سے بچاتے رہیں گے۔تحریک انصاف کی جانب سے اس شہر پر دھاوے کے مابین دو مہینوں سے زیادہ کا وقفہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ دھاوا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بولا گیا تھا۔ اب نومبر کے تیسرے ہفتے کی باری ہے۔ دھاوے کے دن سے مگر کم از کم تین دن پہلے سے معمول کی زندگی میں تعطل شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں کی بندش سے کاروباری اعتبار سے گہما گہمی تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ کوئی ماہر معیشت حساب لگائے کہ دھاوے کے خوف سے مفلوج کی زندگی کی اجتماعی قیمت کیا ہے۔ میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں سے جو صف بندی ہوتی ہے اس پر ہوا اجتماعی خرچ بھی ہمارے سامنے آنا چاہیے۔ خالصتاً معاشی اعداد و شمار کے علاوہ ہمیں ان جذباتی مسائل پر بھی توجہ دینا ہو گی جو اسلام آباد پر دھاوے اور انھیں ناکام بنانے کا جنون عام انسانوں کے سرپر سوار کیے جا رہے ہیں۔