یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ خالد احمد کی موت وقت کا ظلم ہے، آمریت کا بانجھ پت جھڑ ہے یا ایک پسماندہ معاشرے کی بے ہنگم افراتفری کے پس پردہ دبے پاؤں بڑھتی بے خبری۔ یہ ہماری یاد کی رحم دلی ہے جو ہمیں دکھ کی تیز آنچ کا احساس نہیں ہونے دیتی یا تاریخ کی دانستہ تنسیخ ہے جو شعورِ تناسب کو ملیامیٹ کرتی گزر رہی ہے۔ خالد احمد لاہور کے مشرق میں کوئی 75 میل دور واقع جالندھر میں 21 دسمبر 1943 کو پیدا ہوئے۔ والد فوج سے وابستہ تھے اور والدہ ناخواندہ۔ چند برس بعد تقسیم کی لکیر کھنچی تو خالد احمد اپنے ننھیال کے ساتھ ایک ٹرک میں لاہور چلے آئے جہاں انہیں پرانی انارکلی میں کپورتھلہ ہاؤس کے ایک حصے میں جگہ ملی۔ خالد احمد کے والد ابھی ملایا کے محاذ پر تھے۔ یہ معروف گھرانا متعدد منزلوں سے گزر کر بالآخر زمان پارک میں آباد ہوا جہاں اس خاندان کو ایک اور تہذیبی تقسیم سے گزرنا تھا۔ ایک دھارے میں خالد احمد اور ماجد خان کے نام آتے ہیں۔ دوسرا دھارا ناقابل ذکر ہے۔ تاریخ کے صحراؤں میں ان گنت قدیم دریائی گزرگاہوں میں اب دھول اڑتی ہے۔
خالد احمد نے لاہور چھاؤنی کے عارف ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا۔ 1965 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں امتیازی حیثیت سے گریجوایشن کی۔ اس دوران جرمن اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں۔ روسی، عربی اور فارسی زبانوں میں بھی درک پایا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے آنرز کرنے کے بعد فارن سروس کا حصہ بنے۔ سرکاری ملازمت کا یہ سلسلہ ضیا الحق کی آمد سے ختم ہو گیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ انگریزی صحافت کے ایک اور قد آور صحافی خالد حسن نے بھی سول سروس چھوڑ کر پاکستان ٹائمز میں ملازمت اختیار کی تھی۔ کوئی دس برس بعد خالد احمد نے اسی روایت کا اتباع کیا۔ برسوں پاکستان ٹائمز میں بے رس اداریہ نویسی کی مشقت کی۔ اسی ریاضت کا حاصل یہ تھا کہ خالد احمد نے دھیمے لہجے میں کاٹ دار دلیل بیان کرنا سیکھ لی۔ بعد ازاں نیشن، فرنٹیئر پوسٹ، فرائیڈے ٹائمز، ڈیلی ٹائمز اور نیوز ویک کے پاکستانی ایڈیشن میں ادارتی فرائض انجام دیے۔ خالد احمد کی ذات کے دو بنیادی حوالے تھے۔ بے پناہ مطالعہ اور اتھاہ انکسار۔ وہ ہماری صحافتی روایت میں آخری شخص تھے جو عقب نشین رہتے ہوئے ٹھوس علمی مشاغل کو سانسوں کا معنی جانتے تھے۔ ووڈرو ولسن فیلوشپ پر ایک برس کے لیے امریکا گئے تو پاکستان میں فرقہ ورانہ کشمکش پر ایسی کتاب لکھی جو حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ لسانیات کا علم ان کے ناخنوں میں بھرا تھا۔ ان کے ارتجالاً لکھے اخباری کالم ’ورڈ فار ورڈ‘ کے عنوان سے مرتب ہوئے جو مدتوں اردو لغت کی تحقیق کرنے والوں کو روشنی دیں گے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو ریاست کے تشخص، سیاسی بندوبست اور خطے کی سیاست کے تناظر میں بیان کرنے کی حیران کن صلاحیت رکھتے تھے۔ اس ضمن میں ان کی کتابیں The State in Crisis، Pakistan: Behind the Ideological Mask، Sectarian War: Sunni Shia Conflict in Pakistan اور Pakistan ’s Terror Connundrumاپنے تجزیے کی گہرائی اور قابل تصدیق حقائق سے نتائج اخذ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا معمولی نمونہ ہیں۔
اپنی ذات سے بے نیاز اور اپنے مقام کے احساس سے بے گانہ خالد احمد ایسے صحافی نہیں تھے جو صرف کاغذ پر لفظ لکھتا ہو۔ وہ ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہوئے بنیادی سیاسی سوالات پر فعال کردار ادا کرتے تھے۔ جنوبی ایشیا میں امن کے لیے ان کی مساعی کا بہت بڑا حصہ کنارے پر بیٹھ کر موجیں گننے والوں کی نظر سے اوجھل رہا۔ وہ انسانی حقوق کے لیے حقیقی تڑپ رکھتے تھے۔ عورتوں، مذہبی اقلیتوں، ثقافتی اکائیوں اور محنت کشوں کے لیے ان کا قلم بے نیام شمشیر تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ بظاہر پس منظر میں رہ کر کتابوں میں گھرا یہ بے ضرر صحافی حقیقی فیصلہ سازوں کی نظر میں ایسا خطرناک سمجھا جاتا تھا کہ صحافت کی بساط بچھاتے ہوئے انہیں خاص احتیاط سے حاشیے پر رکھا جاتا تھا۔ خالد احمد ایسے عالم کے لیے ایسا ابتذال کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ دفتر میں نوآموز صحافیوں کے لیے ایک شفیق استاد تھے، ان کے سیاسی اور معاشی تجزیوں کی دھوم ایک دنیا میں تھی۔ بین الاقوامی صحافت کے بڑے ادارے ان کی رائے جاننے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ شام گئے یہ درویش صفت صحافی اپنی پرانی گاڑی لاہور کی کسی سڑک کے کنارے کھڑی کر کے کچھ دیر دوستوں کے ساتھ گزارتا۔ ان کا قہقہہ بلند آہنگ نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور پیشانی پر تفکر کی لکیروں کی دھوپ چھاؤں کبھی غائب نہیں ہوئی۔
دنیا میں امن، انصاف اور سادھارن انسانوں کی آسودگی کا خواب دیکھنے والا یہ شخص رات ڈھلتے ہی اپنا کتابوں سے بھرا تھیلا کندھے پر ڈالتا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہو جاتا کہ گھر پر والدہ میرا انتظار کر رہی ہیں۔ خالد احمد ہر رات ایک خاص وقت پر والدہ کی خدمت میں کچھ دیر بیٹھتے اور پھر اپنے کمرے میں کتابوں کی دنیا میں پہنچ جاتے۔ مطالعے میں ان کی دلچسپیاں حیران کن حد تک وسیع تھیں۔ وہ شمالی ہندوستان کی ترائیوں سے لاطینی امریکا کے دریاؤں تک، اشتراکی دنیا کے تاریخی ارتقا سے جدید معیشت تک قاموسی علم رکھتے تھے۔ ان کی دلچسپی کا ایک حیران کن پہلو عالمی تجارت تھا۔ کیوں نہ ہو، جنگ اور تجارت انسانی تاریخ کے دو بنیادی دھارے ہیں۔ خالد احمد امن پسند تھے اور تجارت کے امکانات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی ذات میں اپنے مخالفین کے لیے بھی کوئی تلخی نہیں تھی۔ طبعاً گوشہ نشین ہونے کے باوجود ملک کے اندر اور باہر ان کے احباب کا حلقہ وسیع تھا۔ پاکستانی صحافت نے حالیہ برسوں میں آئی اے رحمن، ضیا الدین احمد، ظفر اقبال مرزا اور سلیم عاصمی جیسے بہت سے کوہ قامت افراد کھو دیے ہیں۔ خالد احمد پیشہ ورانہ دیانت، علمی استغراق اور شخصی تہذیب کا آخری نمونہ تھے۔ خالد احمد کے رخصت ہونے سے ہم غریب تر ہو گئے ہیں۔ تعجب ہے کہ پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 18 نومبر 2024 کی سہ پہر میاں میر کے قبرستان میں ہم نے اس آفتاب کو دفن کر دیا جو پون صدی قبل اسی قبرستان سے گزر کر اپنے سکول جایا کرتا تھا۔