منگل کی صبح اٹھ کر عادتاََ یہ کالم لکھنے سے قبل گھر آئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نظر دوڑائی۔ اردو کے ایک اخبار کی لیڈ سٹوری نے چونکا دیا۔ صفحہ اوّل پر چھپی یہ خبر انصار عباسی نے لکھی تھی۔ موصوف میری طرح عملی رپورٹنگ سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ چوندی چوندی خبروں کی تلاش میں جتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین رابطہ ہوا ہے۔ اس کی بدولت کوشش ہو رہی ہے کہ تحریک انصاف کو24 نومبر کے روز اسلام آباد پر ایک اور لشکر کشی سے باز رہنے کو آمادہ کیا جائے۔ حکومت اورپی ٹی آئی کی جانب سے کون لوگ رابطے میں ہیں ان کے نام انصار صاحب نے نہیں لکھے۔ نہ ہی ان ممکنہ شرائط کا اشارتاََ بھی ذکر کیا جو تسلیم کرلی جائیں تو تحریک انصاف 24 نومبر کو اسلام آباد پر ایک اور دھاوا بولنے سے بازرہ سکتی ہے۔ یہ کالم لکھتے وقت میں ہرگز اس قابل نہیں کہ انصار عباسی کی لکھی خبر کی تردید یا تصدیق کر سکوں۔
ان کی لکھی خبر پڑھتے ہوئے البتہ یاد آیا کہ اتوار کی شام دوستوں کی محفل میں موجود تھا۔ وہاں موجود ایک متحرک صحافی نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ شاید تحریک انصاف اس انداز میں اسلام آباد کی جانب روانہ نہ ہو جس کے بارے میں مذکورہ محفل میں موجود کئی شرکاء پریشانی کا اظہار کر رہے تھے۔ جس صحافی نے دھرنا موخر یا منسوخ ہوجانے کا ذکر کیا تھا ان سے میرے بے تکلفانہ مراسم نہیں۔ کج بحثی میں لہٰذا الجھنے سے گریز کیا۔ پیر کے دن مگر خبر ملی کہ اس روز ایپکس کمیٹی کا جو اجلاس ہونا تھا اسے منگل کے دن تک موخر کر دیا گیا۔
صحافی ہر خبر کو اس نگاہ سے دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا جو عام قاری استعمال کرتا ہے۔ جو خبر سرکار نے فراہم کی اس کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم صاحب کی ناسازی طبع کی وجہ سے ایپکس کمیٹی کا اجلاس موخر کردیا گیا ہے۔ ”ناسازی طبع“ ایک فطری امر ہے۔ وزیر اعظم گزشتہ چند دنوں سے ایک نہیں دو علاقائی اور عالمی امور سے متعلق پہلے سعودی عرب اور بعدازاں آذربائیجان میں ہوئی اعلیٰ سطحی کانفرنسوں میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام آباد کا موسم بھی ان دنوں بدل رہا ہے۔ ایسے میں طبیعت کا ناساز ہو جانا انہونی تصور کرنا نہیں چاہیے۔ اتوار کی شام سنی ایک خبر کی وجہ سے لیکن میرا شکی ذہن چند لمحوں کو یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ غالباََ ناسازی طبع“ کو تحریک انصاف سے حکومتی روابط یقینی بنانے کے لئے جواز کے طورپر استعمال کیا گیا ہے۔
ایپکس کمیٹی ہمارے ہاں فیصلہ سازی کا تقریباََ حتمی ادارہ ہے۔ اس کے اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوتے ہیں۔ قومی سلامتی کے امور پر توجہ دینے والے اس فورم میں آرمی چیف کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود ہوتے ہیں۔ بطور صحافی میں یہ بات تسلیم کرنے سے قطعاََ انکار کرتا ہوں کہ پیر کے روز اگر ایپکس کمیٹی کا اجلاس طے شدہ وقت کے مطابق شروع ہو جاتا تو اس کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے 24 نومبر کے دن اسلام آباد پر ایک اور دھاوا بولنے کا ذکر نہ ہوتا۔ خیبرپختونخواہ کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے علی امین گنڈاپور مذکورہ دھرنے کے بارے میں وضاحتیں دینے کو مجبور ہوجاتے۔ منگل کی صبح اٹھ کر انصار عباسی کی خبر دیکھی تو دو جمع دو کرنے کو مجبور ہو گیا۔
طولانی تمہید کے بعد یہ لکھنا بھی لازم گردانتا ہوں کہ ٹھوس معلومات تک رسائی کے بغیر جبلی طورپر میرے لئے یہ سوچنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف 24 نومبر کے روز اسلام آباد مارچ کی صورت آنے کا ارادہ ملتوی کردے گی۔ اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان بہت دنوں سے اسلام آباد پر ”آخری دھاوا“ بولنے کو بے چین ہیں۔ اپنے ملاقاتیوں سے وہ اس کا تقاضا کرتے رہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد تحریک انصاف کے رہ نماﺅں نے انہیں پیغام پہنچایا کہ چند ہی ہفتے قبل تحریک انصاف کے بے تحاشہ کارکن سرکاری جبر کا مقابلہ کرنے اسلام آباد کے ریڈزون داخل ہوگئے تھے۔ یہاں کئی گھنٹوں تک انہوں نے پولیس کی لاٹھیوں اور اس کی جانب سے پھینکی آنسو گیس کا سامنا کیا۔ پولیس کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے انہیں امید تھی کہ علی امین گنڈاپور خیبرپختونخواہ سے آئے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ ریڈزون پہنچ جائیں گے۔ علی امین مگر اپنے ہمراہ آئے قافلے کو اٹک کے پاس چھوڑ کر ”چور راستوں“ سے اسلام آباد میں داخل ہو گئے۔ ریڈ زون پہنچنے کے بجائے اس کے قریب واقع خیبرپختونخواہ ہاﺅس میں داخل ہوئے۔ وہاں چائے پی رہے تھے تو ”چھاپے“ کی آواز آئی اور وزیر اعلیٰ وہاں سے ”غائب“ ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی پراسرار گمشدگی کے بعد پشاور پہنچے اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ”اچانک“داخل ہو گئے۔ وہاں کھڑے ہو کر انہوں نے اپنی ”گمشدگی“ کے بارے میں جو داستان سنائی وہ کسی بھی حوالے سے قابل اعتبار نہیں تھی۔
عمران صاحب کوبتایا گیا کہ علی امین گنڈاپور کے گزشتہ دھاوے کے حوالے سے پراسرار گمشدگی اور نموداری نے کارکنوں کو بددل کر دیا ہے۔ انہیں حوصلہ دینے اور اسلام آباد پر ایک اور دھاوا بولنے کے لئے وقت درکار ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ اسلام آباد پر ”آخری دھاوا“ 25 دسمبر یا 20 جنوری کے دنوں تک موخر کردیا جائے۔ تحریک انصاف کے قائد مگر اپنے ارادے پر قائم رہے اور ازخود 24نومبر کا اعلان کر دیا۔ مذکورہ تاریخ کا اعلان کردینے کے بعد ان کی ہمشیرہ علیمہ خان مسلسل تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنے بھائی سے جیل میں ہوئی ملاقاتوں کے بعد ”تخت یا تختہ“ والے پیغامات دے رہی ہیں۔ عمران صاحب کی اہلیہ بھی پشاور میں وزیر اعلیٰ کے لئے مختص گھر میں بیٹھ کر وہاں کے ”ناراض اور بددل“ ہوئے کارکنوں سے دلوں کو حوصلہ دینے والی ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے اہم رہ نماﺅں کو چند ”فرائض“ بھی ان کی جانب سے سونپے جارہے ہیں۔ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان صاحبہ کے متحرک ہوجانے کے باوجود تحریک انصاف نے حکومت یا مقتدرہ سے چند ٹھوس رعایتوں کے حصول کے بغیر 24نومبر کا دھرنا ملتوی یا منسوخ کردیا تو تحریک انصاف کے کارکنوں کی اکثریت بہت بددل ہوجائے گی۔ ہماری سیاست میں لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں اسے سمجھنے کے لئے منطق کے استعمال سے گریز اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔