32

عالمی یومِ اطفال اور پاکستان میں بچوں کی صورتحال

بچوں کے حقوق اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا کسی بھی سماج کی بنیادی ذمے داری ہے۔ ایک متوازن سماج اس وقت تشکیل پا سکتا ہے جب اس کے بچے محفوظ ہوں اور زندگی کی تمام بنیادی ضروریات ان کو حاصل ہوں۔ اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 20 نومبر کو یوم اطفال منایا جاتا ہے تاکہ بچوں کے حقوق اور ان کی بہبود کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکے۔

اقوام متحدہ کے تحت 20 نومبر کو یوم اطفال منانے کی ابتدا 1954 میں ہوئی۔ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پر بچوں کے حقوق کو فروغ دینا اور ان کی تعلیم، صحت اور ایک بہتر زندگی کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا تھا۔ اس دن کی ایک اور اہمیت 20 نومبر 1989 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن منظور کیا جانا ہے۔ اس کنونشن نے بچوں کے حقوق کو بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت فراہم کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ دنیا کے تمام بچے محفوظ، خوشحال اور تعلیم یافتہ مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔

 بین الاقوامی یومِ اطفال کا مقصد دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اس دن کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ہر بچہ چاہے وہ کہیں بھی پیدا ہو، اسے برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ ان حقوق میں تعلیم، صحت، حفاظت اور ایک بہتر ماحول شامل ہیں۔ یہ دن اس بات کی بھی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ بچوں کو سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں برابر کا حصہ ملنا چاہیے تاکہ وہ ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو سکیں۔

پاکستان میں بچوں کی حالت مجموعی طور پر تشویشناک ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کو حقوق کی فراہمی اور تحفظ میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ مختلف سماجی، معاشی اور ثقافتی مسائل کی بنا پر پاکستان میں بچوں کے حقوق کی پامالی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بچوں کی تعلیم، صحت اور تحفظ کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان میں بچوں کے مسائل کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، لڑکیوں کی تعلیم کی کمی، بچوں کی مشقت اور صحت کی سہولتوں کا فقدان شامل ہیں۔

 پاکستان میں بچوں کی تعلیم کی شرح میں مسلسل کمی آرہی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں تعلیمی ادارے کم ہیں اور وسائل کی کمی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 22 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور یہ تعداد دنیا کے کئی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بچوں کی تعلیم کی کمی کی ایک بڑی وجہ غربت ہے، جس کی وجہ سے بچوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اسکول جانے کا موقع نہیں ملتا۔

 پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بہت سے علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، اور انھیں گھر کے کام کاج میں مشغول کردیا جاتا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔

 پاکستان میں بچوں کی صحت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔ صحت کے بنیادی سہولتوں کی کمی، صاف پانی کی عدم فراہمی، اور غذائی قلت کے مسائل بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے غذائی کمی کے باعث بیمار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پولیو اور دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسی نیشن کی کمی اور صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی بھی بچوں کی صحت کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں بچوں کو معیاری صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

 پاکستان میں بچوں کی مشقت کا مسئلہ بھی بہت سنگین ہے۔ لاکھوں بچے مختلف صنعتوں میں کام کرتے ہیں، جہاں انھیں سخت حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ بچے نہ صرف جسمانی طور پر مشقت کرتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی زندگی کے بہتر مواقعے انھیں حاصل ہوتے ہیں۔

 پاکستان میں بچوں کی مشقت کا مسئلہ خصوصاً فیکٹریوں، گھریلو ملازمتوں اور زراعت کے شعبے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان بچوں کو نہ صرف کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان سے ایسے کام بھی کروائے جاتے ہیں جو ان کے لیے کمسنی کی وجہ سے کرنا مشکل ہوتا ہے۔

پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی، جسمانی تشدد اور جنسی ہراسانی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ والدین کی غیر موجودگی، طلاق اور دیگر سماجی مسائل کے باعث بچے اکثر تشویش ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں بچوں کو دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی کارروائیوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بچے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ سب بچوں کی زندگیوں پر طویل مدتی اثرات مرتب کرتے ہیں بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان نے بچوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن (CRC) پر دستخط شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین بھی متعارف کرائے ہیں، جیسے ’’ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ‘‘ اور ’’چائلڈ لیبر پروہیبیشن ایکٹ۔‘‘ تاہم، ان قوانین پر عملدرآمد میں کمی ہے اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بہت عام ہیں۔

 پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، مگر ان کی کوششوں کے باوجود صورتحال میں کوئی خاص بہتری دیکھنے میں نہیں آتی۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ تعلیم، صحت، مشقت اور تحفظ کے حوالے سے پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آگاہی مہموں کی ضرورت ہے تاکہ والدین اور کمیونٹی کے افراد بچوں کی تعلیم اور بہتر زندگی کے حوالے سے آگاہ ہوں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

بین الاقوامی یومِ اطفال کے موقع پر ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں گے اور ان کے لیے ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس پہ کام کرے تاکہ ملک میں بچوں کو تمام بنیادی ضروریات میسر ہوں اور ہر بچہ محفوظ ہو اور ایک ایسا سماج تشکیل پائے جو ہر بچے کا پیدائشی حق ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جیسا سماج ہمارے بچوں کو ملنا چاہیے اس کی ہم صرف باتیں کرتے ہیں اسے حقیقی شکل دینے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ایکسپرس