ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ

پانچ نومبر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہوتے ہی درجنوں ممالک کے سربراہوں نے نو منتخب صدر کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ جن دو ممالک کے سربراہوں نے سب سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو کی ان میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو اور سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلیمان شامل ہیں۔ نتن یاہو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے آخری نتائج آنے سے پہلے ہی فون کر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور مبارکباد بھی دے دی۔ شہزادہ سلیمان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور تزویراتی تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ الیکشن سے دو ہفتے قبل نو منتخب صدر نے سعودی عرب کے ٹیلیویژن چینل العربیہ کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ کراؤن پرنس میرے دوست بھی ہیں اور ایک Visionary (صاحب بصیرت) بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے دیرینہ تعلقات ہیں جنکی نوعیت زیادہ تر کاروباری ہے مگر ان کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو انسانی حقوق کی پابندی کی تلقین نہیں کرتے۔ ان کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی کے صدور خلیجی حکمرانوں سے انسانی حقوق کی پابندی کا سختی سے مطالبہ کرتے ہیں۔اپنی پہلی مدت صدارت میں صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے جس ملک کا دورہ کیا تھا وہ سعودی عرب تھا۔ ان دنوں سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت عروج پر تھی اور صدر ٹرمپ نے شہزادہ سلیمان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا تھا۔ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے کچھ پہلے 2020ء میں صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور تین مسلم ممالک کے مابین ابراہیمی معاہدہ کرایا تھا جس کے مطابق متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کئے تھے۔ اس وقت کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل سے فسلطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جس مشرق وسطیٰ کا سامنا ہے  وہ ان کی پہلی مدت صدارت سے بہت مختلف ہے۔ اس بار اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں خوفناک جنگی محاذ کھولے ہوئے ہیں اور خطے کے تمام مسلم ممالک یہ امید رکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خلیجی ممالک ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی جنگ میں صدر بائیڈن کی حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دینے کے باوجود جنگ بند کرانا تو درکنارغزہ میں خوراک اور ادویات کی ترسیل جیسی رعایتیں بھی حاصل نہیں کر سکے۔ آٹھ برس پہلے سعودی عرب اور ایران کی شدید چپقلش کے تناظر میں صدر ٹرمپ کے لئے خلیجی ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا آسان تھا۔ مگر اب شہزادہ محمد بن سلیمان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ کسی سمجھوتے کے لئے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال اس لئے بھی زیادہ پیچیدہ ہے کہ خلیجی ممالک غزہ کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنی معیشتوں کے تیل پر انحصار کو کم کرکے انہیں متنوع بنانا چاہتے تھے۔ اس تبدیلی کے لئے انہیں مغربی ممالک کے تعاون کی ضرورت تھی جسے غزہ کی جنگ نے پس منظر میں دھکیل دیا۔ دو ہفتے قبل سعودی عرب میں سالانہ انوسٹمنٹ فورم جس کا نام Davos in the Desert ہے منعقد ہوا۔ یہ فورم گزشتہ چار برس میں اپنے متعین کردہ اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ اب خلیجی حکمرانوں کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جنگ بند کرانے کے علاوہ ان کے معاشی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں ان کی مدد کریں گے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ میں یہودی لابی کا اثر رسوخ‘  ڈونلڈ ٹرمپ کے نتن یاہو کے ساتھ دوستانہ مراسم اور نو منتخب صدر کے داماد Jared Kushner کایہودی ہونا مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اگلے چار برسوں میں کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ جئیرڈ کشنر نے چار برس پہلے شہزادہ سلیمان سے اپنے تعلقات کی وجہ سے دو ارب ڈالر اپنی Private Equity Firm میں انوسٹ کرائے تھے۔جو معاملات ماہرین اور مبصرین کے لئے نہایت پیچیدہ ہوتے ہیں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے نہایت سادہ اور آسان ہوتے ہیں۔ جولائی میں بلومبرگ نیوز کے ایک صحافی نے جب ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ مسائل کی طر ف دلائی تو انہوں نے کہا کہ ان کے شہزادہ سلیمان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ان کے جواب کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ "He likes me. I like him." صدر ٹرمپ نے کہاتھا کہ سعودی عرب کو ہمیشہ سے تحفظ کی ضرورت رہی ہے اور میں نے انہیں ہمیشہ تحفظ فراہم کیا ہے۔صدر ٹرمپ کو محمد بن سلیمان اور نتن یاہو کے ساتھ اپنے تعلقات پر کتنا ہی اعتماد کیوں نہ ہو یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ بنا دیا تھااور گولان کی پہاڑیوں کے متنازعہ علاقے پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کر لیا تھا۔ اب انہوں نے جس کابینہ کا اعلان کیا ہے اس کے بیشتر اراکین تواتر کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف بیانات دے چکے ہیں۔ سینیٹر مارکو روبیواور Pete Hegseth جو ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں علی الترتیب سیکرٹری آف سٹیٹ اور سیکرٹری آف ڈیفنس ہوں گے کئی مرتبہ غزہ میں جنگ بندی کے خلاف اور نتن یاہو کی مکمل حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان دونوں کی تعیناتی کے بعد ریاست مشی گن کے ان مسلمان ووٹروں نے نہایت مایوسی کا اظہار کیا ہے جنہوں نے اس امید پر ڈونلد ٹرمپ کو ووٹ دئے تھے کہ وہ غزہ کی جنگ بند کرا دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کی سیاست کی دو انتہاؤں کو کیسے ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ 

 

بشکریہ روزنامہ آج