کرکٹ کے بدلتے رنگ

کرکٹ اب وہ کرکٹ نہیں رہی جو کبھی جینٹل مینز گیم gentlemen's game کہلاتی تھی اس کا حلیہ 1975ء سے بدلنا شروع ہوا پہلے ففٹی ففٹی اور بعد میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے میچ بھی کھیلے جانے لگے اور یہ گیم ایک پریشر گیم بن گئی جس کے ہر بال کو میرٹ پر کھیلنے کے بجائے چوکا یا چھکا لگانے کی کوشش ہوتی  ہے ہمیں یاد ہے جب کم دورانئے کے میچ کھیلے جانے لگے تو اس وقت کے کئی پرانے سینئر کرکٹ کے کھلاڑیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اب یہ گیم سٹے بازوں کے ہتھے چڑھ جائے گی اور اس کے کھلاڑی کرپشن کا شکار ہوں گے وقت نے ان کے اس خدشے کو درست ثابت کیا‘ بال ٹمپرنگ اور میچ فکسنگ میں اس کے کئی نامور کھلاڑی ملوث پائے گئے جن کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی‘ ہاں البتہ اس کھیل میں گلیمر بہت آ گیا  ہے‘ اب سفید یا کریم کلر کی پتلون اور قمیض کی جگہ کرکٹ کے کھلاڑی رنگدار لباس پہنتے ہیں‘میڈیا کی پروجیکشن نے اس کھیل میں چار چاند لگا دئیے ہیں‘ کرکٹ کا کھیل اب ایک منافع بخش انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا  ہے۔جس وقت ففٹی ففٹی میچوں کا اجرا ء کیا جا رہا تھا تو یہ جواز دیا گیا کہ ٹیسٹ میچز میں فیصلے نہیں ہوتے لہٰذا کرکٹ میچوں کو لوگوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور چھوٹے دورانئے کے میچوں سے کرکٹ کے میدان لوگوں سے پھر بھر جائینگے حالانکہ یہ جواز غلط تھا ٹیسٹ میچوں کیلئے جب بھی گراؤنڈ مین groundman  نے سپورٹنگ  sporting  wicketبنائی تو اس پر کھیلے جانے والا ٹیسٹ میچ کا ضرور چار دنوں میں فیصلہ ہوا‘ آج بھی جس بھی جس ملک میں ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے ہیں ان  کے فیصلے پانچ دنوں میں ہو ر ہے ہیں‘اگر وطن عزیز میں بھی ایسی وکٹیں بنائی جائیں کہ جو بلے بازوں اور بالروں دونوں  کے لئے مساوی طور پر فائدہ مندہوں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹیسٹ میچوں کے پانچ دنوں کے اندر رزلٹ نہ آئیں‘دیکھا جائے تو ماضی کی نسبت اب زیادہ تر ٹیسٹ میچوں کا نتیجہ تین چار دن میں آجاتا ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج