غزہ اور لبنان کے حوالے سے سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عبّاس عراقچی کا دورہ پاکستان، پاکستان کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا۔ ان کے اس دورے کے دوران ان سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ ویسے تو پاکستان اور ایران کی ہمسائیگی اور باہمی مفادات کے متعدد امور پر یکجا ہونے کے سبب سے ایران کی جانب سے جب کبھی بھی اس سطح کی اعلی قیادت پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو اس کے اثرات اور مقاصد کا تجزیہ کرنا اہم ہی ہوتا ہے مگر اس بار تو غزہ، لبنان پر اسرائیلی مکمل جارحیت اور براہ راست ایران سے تصادم کی کیفیت پیدا ہونے کے سبب سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ اس وقت ایران کی قیادت معاملات پر کیا نقطہ نظر اختیار کیے ہوئے ہے۔
جب ایرانی وزیر خارجہ سے یہ ملاقات ہوئی تو اس وقت تک ابھی امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے نہیں آئے تھے اور اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اگلی امریکی انتظامیہ کس کی ہوگی اور وہ مختلف امور پر کیا حکمت عملی طے کرے گی۔ مگر ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کی ایران کے لئے کوئی اہمیت نہ ہونے کے موقف کو اپنایا کہ امریکہ میں سیاسی حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں کیوں کہ ان کا یہ بے باک موقف تھا کہ ایران کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ امریکہ میں کون مسند اقتدار سنبھالتا ہے اور کون شکست کا منہ دیکھتا ہے۔ ایران کے لئے ان دونوں میں سے کسی کا بھی بر سر اقتدار آنا ایک ہی معنی رکھتا ہے کہ وہ دونوں ہی ایران سے مخاصمت کی پالیسی اختیار کریں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیل ایران حالیہ سخت کشیدگی اور اس آگ کے ممکنہ پھیلاؤ کے حوالے سے کہا کہ ایران اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جنگ میں اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حوالے سے تیاری مکمل ہے یا نہیں۔ ایران اسرائیل سے ممکنہ جنگ کے حوالے سے ہر طرح کی تیاری مکمل کر چکا ہے اور اگر اسرائیل نے کوئی حماقت کی تو ایسی صورتحال میں ایران اس کو سخت ترین جواب دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ انہوں نے ایران کی اصل طاقت ان شہدا کو قرار دیا جو اپنے ملک کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کو نثار کر چکے ہیں۔ ایران کے حوالے سے اس تصور کو بھی انہوں نے رد کیا کہ ایران عالمی سطح پر تنہا ہے۔ ایرانی صدر عنقریب ماسکو کا دورہ کرنے والے ہیں اور اس دورے میں سب سے اہم پیش رفت کی جو توقع کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایران اور روس دفاعی تعاون کے حوالے سے ایک پچیس سالہ معاہدہ پر دستخط کر دیں گے اور یہ معاہدہ اسی نوعیت کا ہو گا جیسا کہ ایران اور چین کے درمیان چند سال قبل ہو چکا ہے۔
ایران اس ساری صورت حال میں پاکستان کے کردار سے بہت خوش محسوس ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کوئی لگی لپٹی بغیر غزہ، لبنان کے معاملات کے ساتھ ساتھ ایران کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہوا ہے وہ در حقیقت ان کی توقعات سے بھی زیادہ رہا ہے۔ پھر ایران اور سعودی عرب کے معاملات کو بھی بہتر کرنے کی غرض سے بہت کاوشیں اس وقت کی جا رہی ہیں۔
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی عرب دنیا میں ایک یہ احساس جا گزین ہو گیا تھا کہ ٹرمپ اگر جیت گئے تو ان کی پالیسی بہت غیر معمولی ہو سکتی کوئی ایک ماہ قبل کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک عرب دوست سے یہ سوال کیا کہ خلیج فارس کے ممالک کے وزرائے خارجہ نے دوحہ قطر میں مشترکہ طور پر ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہیں۔ اس ملاقات کے محرکات کیا ہیں؟ ایران کو تو اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کا خطرہ ہے مگر اس موقع پر عرب دنیا کا کیا مسئلہ ہے۔ دوست مسکرایا، مسئلہ ایک اور بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور وہ ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی ہے۔ عرب دنیا ابھی تک ٹرمپ کے اس عوامی خطاب کے اثرات سے باہر نہیں نکلی ہے کہ جس میں اس نے سعودی بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کریں تو آپ دو ہفتے بھی اقتدار میں برقرار نہیں رہ سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر امریکہ کے صدر کا ایسا بیان بہت بڑا دھچکا تھا اور اس ہی سبب سے چین کو یہ موقع دستیاب ہوا تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ عرب دنیا کسی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری مکمل کر رہی ہے کہ ہم بھی تنہا نہیں۔ اسی لئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ ہفتے کہا کہ ”ہم ایرانیوں کے ساتھ بہت واضح اور ایماندارانہ بات چیت کر رہے ہیں۔“
اور بظاہر اس اخلاص کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر ہو رہا ہے۔ ریاض میں مسلمان ممالک کی کانفرنس کا انعقاد کے وقت ہی سعودی عرب کی آرمڈ فورسز کے سربراہ کی تہران موجودگی اور ایرانی آرمی چیف سے ملاقات پھر ایران کی جانب سے بحری مشقوں میں شمولیت کی سعودی عرب کو دعوت اچھے دنوں کی نوید سنا رہی ہے۔ اس سب سے زیادہ اہم ترین امر یہ ہے کہ ریاض کانفرنس میں اپنی افتتاحی گفتگو میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان نے ایران کے حوالے سے کہا کہ ”ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو مجبور کرے کہ وہ ایران کی خودمختاری کا احترام کرے اور اس کی سرزمین پر حملہ نہ کرے۔“
سعودی عرب کی جانب سے ایسا مطالبہ واضح پیغام ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کچھ برف تو پگھلی ہے اور یہ پیغام صرف اسرائیل ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کے مخاطب دوسرے بھی ہے۔ اگر غزہ اور لبنان میں جاری اس بد ترین نسل کشی کے وقت یہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کو بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کر لے اور علاقائی بالا دستی کی بجائے مشترکہ موقف کی جانب بڑھے، حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کے امور کو نیک نیتی سے طے کر لے تو بہت تگڑا موقف دیتے ہوئے صرف غزہ اور لبنان پر ہی اسرائیلی جارحیت کو نہیں روک دیں گے بلکہ ایران اور سعودی عرب کی جانب بڑھتے خطرات کو بھی مشترکہ طور پر رفع کیا جا سکتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کتنی معاملہ فہمی سے کام لیں گے۔