ایک کیف تھا
سرور تھا
انبساط تھا
بے قراری تھی
وارفتگی تھی
سرشاری تھی
جی میں آئی کہ اپنی سوانح عمری لکھوں لیکن ایسی سوانح عمری جو
منفرد ہو
جداگانہ ہو
ایسی سوانح عمری جیسی پہلے کسی نے نہ لکھی ہو۔
یہ دو ہزار سترہ کی بات ہے جب میری عمر پینسٹھ برس تھی اور مجھے اپنے پچھلے پچاس برس کی کہانی لکھنی تھی جب سے میں نے زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ
؎ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
میں نے سوچا کہ میں پچاس برس کی کہانی صرف سو صفحوں میں لکھوں
اپنے سارے دکھ، اپنے سارے سکھ، کیا کھویا کیا پایا عمر بھر کا تجربہ ’مشاہدہ‘ مطالعہ اور تجزیہ۔ سو صفحوں کے فیصلے سے واضح تھا کہ میں تفاصیل نہیں لکھ سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ سوانح عمری استعاراتی ہو تاکہ اس میں انفرادیت بھی ہو معنویت بھی اور گہرائی بھی۔
پھر میں نے سوچا اگر سوانح عمری فرسٹ پرسن میں لکھوں گا تو ہر صفحے پر دس دفعہ۔ میں۔ لکھنا ہو گا جس سے نرگسیت کی خوشبو آئے گی اس لیے فیصلہ کیا کہ سوانح عمری تھرڈ پرسن میں لکھوں گا تا کہ قدرے جذباتی فاصلہ بھی رہے اور اس میں افسانوی طرز بھی آ سکے۔
میں نے اپنے ہم زاد کے نام کے بارے میں سوچا تو دو نام ذہن میں آئے درویش اور خضر
میں نے خضر چنا کیونکہ خضر ایک ایسا دیومالائی کردار ہے جو لوگوں کی زندگی میں تھوڑی دیر کے لیے آتا ہے راستہ دکھاتا ہے مدد کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ میں نے سوچا میرا تھراپسٹ ہونے کا کردار بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ مجھ سے ملتے ہیں اپنی کہانی اپنا مسئلہ سناتے ہیں میں ان کو مشورہ دیتا ہوں اور وہ رخصت ہو جاتے ہیں۔
پھر میں نے سوچا کہ میں نیلسن منڈیلا۔ پیر ٹروڈو یا چے گویرا کی طرح کوئی مشہور شخصیت تو ہوں نہیں کہ لوگ میرے رشتہ داروں کی کہانی ذوق و شوق سے پڑھیں۔ اس لیے میں نے خضر کی زندگی کے کرداروں کو ایسے نام دیے جو ان کی خصوصیت تھی ان کی شخصیت کا اہم اور نمایاں پہلو تھا خضر کی ماں کا نام مذہب، باپ کا نام تصوف، نانی کا نام دانائی، بہن کا نام دوستی رکھا۔ خضر جس شہر جس ملک میں پیدا ہوا اس کا نام روایتوں کا شہر اور جس شہر جس ملک میں ہجرت کر کے گیا اس کا نام آزادیوں کا شہر رکھا۔
جب یہ ہوم ورک ہو گیا تو میں اپنی سوانح عمری لکھنے بیٹھا اور میں اس کیف اس سرور اس سرشاری کی بارش میں بھیگ گیا۔ صبح اٹھ کر لکھنے بیٹھتا تو قلم لکھتا چلا جاتا ایک صفحہ۔ دو صفحے۔ چار صفحے۔ آٹھ صفحے۔ دس صفحے۔ میرے اندر ایک چشمہ بہنے لگا میں سوچتا رہا اور لکھتا رہا چالیس دنوں میں ساری سوانح عمری لکھ ڈالی۔ اس کے ستر باب تھے اور ہر باب ایک یا دو صفحوں کا تھا۔ سوانح عمری کا نام رکھا
THE SEEKER…THE STORY OF KHIZR AND HIS SEARCH FOR TRUTH
خضر سچ کی تلاش میں ہے اور اسے زندگی میں بہت سے سچ ملتے ہیں
مذہبی سچ۔ روحانی سچ۔ سائنسی سچ۔ ذاتی سچ۔ اجتماعی سچ۔ ارتقائی سچ
سوانح عمری لکھنے کے بعد میں نے اپنے چالیس دوستوں کو بھیجی۔ ان کے تاثرات اتنے دلچسپ تھے کہ میں نے وہ تاثرات سوانح عمری کے آخر میں شامل کر دیے۔
اور پھر ایک دن ایک سیمینار میں پاکستانی فنکار شاہد رسام سے ملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگے ڈاکٹر صاحب! آج کل کیا لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا۔ سوانح عمری مکمل کی ہے۔ کہنے لگے پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں نے مسودہ بھیج دیا۔ پڑھ کر کہنے لگے میں اس سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ میں آپ کا پورٹریٹ بنانا چاہتا ہوں تا کہ آپ اپنی سوانح کے فرنٹ کور پر لگا سکیں۔
سوانح عمری چھپی تو عوام و خواص نے بہت پسند کی۔ سوانح عمری لکھنے کا تجربہ چالیس دنوں کے ایک عالم بے خودی کا ایک ٹرانس کا نہایت دلچسپ اور بامعنی تخلیقی تجربہ تھا۔
میری سوانح عمری انگریزی میں چھپی تو ادبی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے تا کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھ سکیں۔
سات سال بعد میں ایک دفعہ پھر عالم بے خودی میں ایک ٹرانس میں آیا اور میں نے اسے چالیس دن کی ادبی ریاضت سے اردو کے قالب میں ڈھالا اور اس کا نام ”سالک“ رکھا۔ جب امجد سلیم منہاس نے مسودہ پڑھا تو انہیں بہت پسند آیا۔ کہنے لگے میں اسے چھاپنا چاہتا ہوں۔ وہ اس سے پہلے بھی میری کئی کتابیں
آدرش۔ کالموں کا مجموعہ
دیوتا۔ افسانوں کا مجموعہ
درویشوں کا ڈیرا۔ خطوط کا مجموعہ
دانائی کا سفر۔ انٹرویوز کا مجموعہ
خواب در خواب۔ غزلوں اور نظموں کا مجموعہ
چھاپ چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے۔ سالک۔ کو سانجھ پبلشر لاہور سے بڑے ذوق و شوق سے چھاپا۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ بھی اسے اتنے ہی ذوق و شوق سے پڑھیں گے جس ذوق و شوق سے اسے امجد منہاس نے چھاپا ہے۔
میں آپ کے تاثرات کا انتظار کروں گا۔