عمران خان کے اندازِ سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود ایک حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں اور وہ یہ کہ موصوف ”آتشِ عشق“ میں بے خطر کودنے کے عادی ہیں۔ عقل کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی بدولت ان کے کئی اقدامات کو میں نے سیاسی اعتبار سے کئی بار خودکش شمار کیا۔ وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کی وجہ سے فراغت کے بعد ان کا قومی اسمبلی سے اپنی جماعت کو باہر نکالنا ایسے فیصلوں میں سرفہرست تھا۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی ان کی ”ضد“ کی وجہ سے تحلیل بھی میری دانست میں ایک غیر منطقی فیصلہ تھا۔ ایسے تمام فیصلوں کے باوجود عمران خان کے جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپنے معروف انتخابی نشان بلے سے محروم ہوئی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 8 فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کے دن اپنے سیاسی مخالفین کو چونکا دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی حمایت میں ڈلے حیران کن ووٹوں کی تعداد کے باوجود سیاسی اعتبار سے تحریک انصاف دیوار ہی سے لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو 26 ویں آئینی ترمیم سے روک نہ سکی اور نہ ہی عزت ماب جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی یقینی بنا سکی ہے۔
خان صاحب کے ”بے خطر“ اقدامات کے نتائج کی ملی جلی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی میرا عقل کا غلام دل یہ لکھنے کو مجبور محسوس کر رہا ہے کہ بدھ کے روز اپنی بہن علیمہ خان صاحبہ کے ذریعے انہوں نے جو ”فائنل کال“ دی ہے وہ غالباََ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی۔ تحریک انصاف کے بانی نے اپنے عاشقان کو حکم دیا ہے کہ وہ ”آخری معرکہ“ کے لئے رواں مہینے کی 24 تاریخ کے دن گھروں سے باہر نکل آئیں۔ گھر سے باہر آکر اسلام آباد کا رخ کریں اور اس شہر پہنچ کر اس وقت تک واپس نہ جائیں تب تک تحریک انصاف کے چار نکات پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جن چار نکات کا ذکر ہے ان میں حال ہی میں پاس ہوئی 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ سرِ فہرست ہے۔ اسلام آباد پہنچ کر 2014ء کے نتائج دہراتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن مگر حقیقتاً اپنے قائد کی فوری رہائی ہی کو بنیادی مطالبہ قرار دیں گے۔
2014ء میں اسلام آباد آنے سے قبل عمران خان نے اس کے لئے بھرپور ہوم ورک کیا تھا۔ 2013ء کے انتخاب سے قبل وہ حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال تک محدود ہو گئے تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی آئے تو قومی اسمبلی کے فقط چار حلقوں کے انتخابی نتائج کے جائزے کا مطالبہ کیا۔ چار حلقوں سے بات ”35 پنکچروں“ تک پہنچی۔ دریں اثنا کینیڈا میں براجمان ہوئے طاہر القادری بھی ان کے ”کزن“ بن کر ”سیاست نہیں ریاست بچانے“ کے لئے پاکستان آ گئے۔ دونوں ”کزن“ لاہور سے چلے اور تمام رکاوٹیں بآسانی عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کے ”ریڈزون“ میں داخل ہو گئے۔ یہاں پڑاﺅ کے دوران پی ٹی وی پر حملہ بھی ہوا۔ قومی اسمبلی، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہاﺅس کی عمارتیں ہمہ وقت ہنگامی حالت میں مقید ہو کر رہ گئیں۔ طاہر القادری کے کارکنوں نے سو سے زیادہ دن گزر جانے کے بعد اپنے لئے ریڈزون میں قبریں کھودنا شروع کر دیں۔ چند دن بعد مگر پشاور کے سکول میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ ہو گیا۔ اس کی وجہ سے دھرنا ختم ہوا اور عمران خان نواز شریف حکومت سے جنڈ چھڑانے کے لئے پانامہ دستاویزات کے منظر عام آنے تک مایوس و بے چین نظر آتے رہے۔
2014ء کے دھرنے کی ناکامی یاد دلانے کی وجہ درحقیقت اس کیلئے ہوئی طویل تیاری تھی۔ بھرپور تیاری کے باوجود مگر وہ دھرنا اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ 24 نومبر کے دھرنے کی جو کال دی گئی ہے اس کے لئے نظربظاہر مناسب تیاری بھی نہیں ہوئی ہے۔ چند ہی ہفتے قبل خیبرپختونخواہ سے جذباتی کارکنوں کا ایک بڑا لشکر لے کر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد آئے تھے۔ یہاں آتے ہی مگر وہ ”غائب“ ہو گئے اور پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے علاوہ دیگر صوبوں کے قصبوں سے آئے تحریک انصاف کے بے شمار کارکن ریڈزون میں پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا سامنا کرتے رہے۔ 9 مئی 2023ء کے واقعات کے بعد سے تحریک انصاف کے نمایاں کارکن خیبرپختونخواہ کے علاوہ دیگر صوبوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کی خاطر پنجاب کے کسی بھی شہر میں ہوا جلسہ مقامی قیادت کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں رہنے کے بجائے اسلام آباد کے ان فلیٹوں تک محدود رہتے ہیں جو منتخب نمائندوں کے لئے تعمیر ہوئے ہیں۔ مقامی قیادت کی عدم موجودگی میں کارکنوں سے یہ امید باندھنا میری دانست میں غیر منطقی ہونے کے علاوہ زیادتی بھی ہے کہ وہ ازخود گھروں سے نکلیں اور کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچ کر یہاں سے واپس جانے کا نام نہ لیں۔
کارکنوں کو ان کے گھروں سے اسلام آباد لانے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے بنیادی ضرورت ٹرانسپورٹ ہے جس کے حصول کیلئے سرمایہ درکار ہے۔ سرمایہ میسر ہوبھی جائے تو کارکنوں کو پنجاب کے مختلف شہروں سے کاررواں کی صورت اسلام آباد تک پہنچانا ان دنوں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ لشکر کی صورت فقط ایک بار پھر علی امین گنڈاپور ہی پشاور سے اسلام آباد آ سکتے ہیں۔ ان کے لائے قافلے کو مگر اٹک پر روک لیا جاتا ہے اور آخری مرتبہ یہ خدشہ بھی شدید سے شدید تر ہوتا رہا کہ معاملہ حد سے بڑھا تو ”مقابلہ“ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پنجاب پولیس کے مابین ہی محدود نہیں رہے گا۔ بالآخر وہ مقام بھی آسکتا ہے جہاں دونوں صوبوں کی پولیس میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں سے خریدی آنسو گیس اور گولیاں متحارب قبائل کی طرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کریں۔
غالباََ اسی امکان سے گھبراکر علی امین گنڈاپور ڈرامائی انداز میں اٹک کے قریب اپنے قافلے کو چھوڑ کر ”اچانک“ اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع خیبرپختونخواہ ہاﺅس پہنچ گئے۔ یہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد ”غائب“ ہوگئے اور کئی گھنٹوں تک پھیلے تذبذب کے بعد بالآخر پشاور پہنچ کر وہاں ہنگامی طورپر بلائے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نمودار ہو گئے۔
میں یہ سمجھنے میں قطعاََ ناکام ہو رہا ہوں کہ اب کی بار علی امین گنڈاپور کس طرح اپنے لشکر کی ہر صورت اسلام آباد آمد یقینی بنائیں گے اور لاکھوں نہ سہی ہزاروں افراد کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کریں گے۔ تحریک انصاف کے وہ ذرائع جن پر میں اعتماد کرتا ہوں بتا رہے ہیں کہ خان صاحب سے اڈیالہ میں ملاقاتیں کرنے والوں کی اکثریت نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ”فائنل کال“ دینے سے قبل تحریک انصاف کے رہ نماﺅں اور مقامی قیادتوں کو چند ہفتوں تک تیاری کا موقع دیں۔ اسلام آباد آنے کے لئے 24 نومبر کے بجائے 25 دسمبر کی تاریخ مناسب بتائی گئی۔ قائد اعظم کے یوم پیدائش کو ”آخری معرکے“ کے لئے تجویز کرنے کے علاوہ مشورہ خان صاحب کو یہ بھی دیا گیا کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو حکم دیں کہ وہ 20 جنوری 2025ء کے روز اسلام آباد پہنچیں۔ اس روز امریکہ کے نومنتخب صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف لینا ہے۔ اس روز اگر عاشقان عمران لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کر اسے ”التحریر سکوائر“ میں تبدیل کر دیں تو ٹرمپ فون اٹھا کر حکومتِ پاکستان سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں آسانی محسوس کر سکتا ہے۔
خان صاحب نے مگر اپنی جماعت کی جانب سے تجویز کردہ دن ردکرکے ازخود 24 نومبر کا انتخاب کیا ہے۔ اس دن کا انتخاب انہوں نے کیوں کیا ہے؟۔ اس سوال کا جواب ان کے قریب ترین شخص کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ حکومت کو مگر دس دن مل گئے ہیں جن کے دوران وہ تحریک انصاف کے ممکنہ دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرے گی۔