1973 کا آئین 10 ؍اپریل کو متفقہ طور پر انتہائی کشیدہ سیاسی حالات میں منظور ہوا جو کسی طور ایک سیاسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ یہ معجزہ کیونکر تخلیق ہوا، اِس کی داستان بہت دلچسپ اور حد درجہ سبق آموز ہے اور اِس کا ہمارے مستقبل سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ راقم الحروف جو اِس پورے عمل میں پسِ پردہ شریک رہا، وہ آج کے نازک مرحلے پر شدت سے محسوس کرتا ہے کہ مختلف مراحل کے مدوجزر تفصیل سے بیان کیے جائیں تاکہ اُن سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ دراصل قیامِ پاکستان کے بعد جو لوگ برسرِاقتدار آئے، اُن میں سے بیشتر حضرات دستور کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں رکھتے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے جولائی 1947 میں آزادیِ ہند ایکٹ منظور کیا جس کی رُو سے دو آزاد مملکتیں 15 ؍اگست سے وجود میں آ جائیں گی جن کی اپنی خودمختار دَستور ساز اسمبلیاں ہوں گی اور دَستور کی منظوری تک 1935 کا ایکٹ نافذ العمل رہے گا۔ نامزد گورنر جنرل کی ایڈوائس پر وائسرائے نے 14 ؍اگست 1947 کو جمہوری آئینی آرڈر جاری کیا جس میں پاکستان کے نامزد گورنر جنرل قائدِاعظم محمد علی جناح کی ایڈوائس پر 1935 کے ایکٹ میں ضروری ترامیم کی گئیں۔
اُن دنوں ہمارے حکمران غیر معمولی پیچیدہ مسائل میں گِھرے ہوئے تھے۔ بھارت جو پاکستان کے قیام پر سخت پیچ و تاب کھا رہا تھا، اُس کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے اعلان کیا کہ پاکستان صرف چھ ماہ قائم رہ سکے گا اور اِس کے بعد بھارت میں ضم ہونے کے لیے منت سماجت کرنے پر مجبور ہو گا۔ اِس منفی ذہنیت کے تحت نئی مملکت کو ختم کرنے کے جتن کیے جانے لگے۔ ظاہر ہے کہ اِن مخدوش حالات میں دستور سازی پر کماحقہ توجہ دینا بہت دشوار تھا، لیکن جماعتِ اسلامی کے امیر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی میدان میں اترے اور حکمران جماعت کو یہ احساس دلاتے رہے کہ اِسلامی دستور کی تدوین ریاست کے استحکام اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ازبس ضروری ہے۔ بدقسمتی سے دین اور جمہوریت سے بے زار اَور طاقت کے نشے میں چُور ایک مختصر مگر بہت طاقتور طبقہ اِس امر کی کوشش کرتا رہا کہ سرے سے دستور سازی نہ ہونے پائے۔ اِس کش مکش کے نتیجے میں پاکستان اپنا دستور نافذ کرنے میں بھارت سے سات سال پیچھے رہ گیا اور اِس بنا پر گوناگوں مسائل کا شکار ہوتا گیا۔
پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953 میں وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر ڈالا جنہوں نے چند ہفتے قبل ہی اسمبلی سے بجٹ منظور کرایا تھا۔ یہ جمہوریت کے لیے پہلا بڑا دَھچکا تھا۔ اُن کے بعد وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا نے ایک ڈیڑھ سال کی شبانہ روز محنت سے دستور ساز اسمبلی سے ایک ایسا دستور منظور کرا لیا جو حد درجہ متوازن اور دَونوں بازوؤں کے لیے قابلِ قبول تھا۔ اِس میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا جو 1948 کے اوائل سے ایک خطرناک سیاسی تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ وزیرِ اعظم نے بڑے فخر سے یہ بھی اعلان کیا کہ منظور شدہ آئین قائدِاعظم کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے 25 دسمبر 1954 کو نافذ ہو جائے گا، مگر گورنر جنرل غلام محمد نے ایک حکم کے ذریعے 24 ؍اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی ہی تحلیل کر ڈالی، ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور و زیرِ اعظم محمد علی بوگرا اَپنی کابینہ سمیت برطرف کر دیے گئے۔ پھر سیاسی بالادستی کا مذاق اڑانے کے لیے معزول شدہ وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ’باصلاحیت افراد‘ پر مشتمل کابینہ قائم کی جس میں میجر جنرل اسکندر مرزا وزیرِ داخلہ اور کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خاں وزیرِ دفاع کے طور پر شامل کر لیے گئے۔ سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جارج کنسٹنٹائن (Constantine) نے اِس اقدام کو غیرآئینی اور غیرجمہوری قرار دَے دیا جبکہ فیڈرل کورٹ کے فل بینچ نے چیف جسٹس جناب محمد منیر کی سربراہی میں اِس اقدام کو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر جائز ٹھہرایا۔ فاضل جسٹس اے آر کارنیلیس نے اِس فیصلے سے اختلاف کیا اور اَکثریتی فیصلے کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ مفلوج گورنر جنرل کی زبردست خواہش یہ تھی کہ ایک کٹھ پتلی کنونشن کے ذریعے ایک من پسند دستور منظور کرا لیا جائے، مگر ایک دوسرے مقدمے میں فیڈرل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ایک نئی دستور ساز اسمبلی منتخب کی جائے جو آئین منظور کرے اور وہ منسوخ شدہ قوانین کی توثیق کی مجاز ہو گی۔ اِس طرح گورنر جنرل کے ٹولے کو غیرمعمولی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
نئی دستور ساز اسمبلی میں مشرقی بنگال سے حسین شہید سہروردی، اے کے فضل الحق اور شیخ مجیب الرحمٰن منتخب ہو کر آئے اور بھاری اکثریت سے چودھری محمد علی وزیرِاعظم چُنے گئے۔ اُنہوں نے جناب سہروردی کو وزارت ِقانون کا منصب عطا کیا، چنانچہ اُنہوں نے وقت ضائع کیے بغیر مختلف سیاسی جماعتوں سے دستور سازی کے لیے مذاکرات شروع کر دیے۔ اُن کی پیہم کوششوں سے ملک کے دونوں بازو پیریٹی کے اُصول پر متفق ہو گئے جو بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ اِس سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں دستور 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا جس پر پورے ملک میں بے پناہ خوشی منائی گئی کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اعلان سے اُنہیں برطانوی راج سے مکمل آزادی حاصل ہو گئی تھی اور اِسلام ریاست کا مذہب قرار پایا تھا۔ 1956 کے دستور میں اِس قدر صوبائی خودمختاری دی گئی کہ جب ستمبر 1956 میں جناب حسین شہید سہروردی وزیرِ اعظم بنے، تو اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے وسیع و عریض ہال میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دستور میں ہماری صوبائی خودمختاری کے 98 فی صد مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ اِس آئین کی غیرمعمولی اہمیت یہ تھی کہ قراردادِ مقاصد اُس کے دیباچے میں شامل تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اعلان کے ساتھ یہ رہنما اصول پوری صراحت سے واضح کر دیا گیا تھا کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے اور اِسے صرف عوام کے منتخب نمائندے ہی بروئے کار لانے کے مجاز ہوں گے۔ اِس میں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل ضمانت بھی دی گئی تھی اور شہری آزادیوں کا پورا خیال رکھا گیا تھا۔ بدقسمتی سے دو ڈھائی سال کے اندر ہی سول اور ملٹری بیوروکریسی کی ملی بھگت سے آئین کی بساط ہی لپیٹ دی گئی، مارشل لاؤں کا ایک المناک سلسلہ چل نکلا اور پھر ملک عوام کی اُمنگوں کے مطابق آئین کی جستجو میں عشروں بھٹکتا رہا۔ (جاری ہے )