ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو سالہ تاریخ کا پہلا کھلاڑی تھا جس نے چھ گیندوں پر چھ چھکے لگائے تھے‘ گار فیلڈ سرجیری کہلاتا تھا‘ یہ 1936میں باربا ڈوس میں پیدا ہوا اور اس نے 1954سے 1974تک ورلڈ کلاس کرکٹ کھیلی‘ اسے ’’گریٹیسٹ کرکٹر آف آل ٹائمز‘‘ کا خطاب بھی مل چکا ہے۔
اس نے 31 اگست 1968 کو چھ گیندوں پر چھ چھکے مار کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا‘ جیری کے بعد یہ ریکارڈ مزید آٹھ کرکٹرز نے قائم کیا‘ ان میں بھارت کے کھلاڑی روی شاستری‘ جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز‘ بھارت کے یووراج سنگھ‘ انگلینڈ کے روز وائیٹلے‘ افغانستان کے حضرت اللہ زازی‘ نیوزی لینڈ کے لیوکارٹر‘ ویسٹ انڈیز کے کیرن پولارڈ اور سری لنکا کے تھیسرا پریرا شامل ہیں۔
کرکٹ نے چار سو سالوں میں صرف یہ نو بیٹس مین پیدا کیے جنھوں نے ایک اوور میں چھ چھکے لگا کر تاریخ رقم کر دی جب کہ چھ گیندوں پر چھ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز آسٹریلین کھلاڑی ایلڈ کیری کو حاصل ہوا‘ اس نے 21 جنوری 2017 کوگولڈن پوائنٹ کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایک اوور میں چھ وکٹیں حاصل کیں‘ اس کی اس کام یابی پر کرکٹ میں ’’پرفیکٹ اوور‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔
ہم اگر چھ گیندوں پر چھ چھکے اور ایک اوور میں چھ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے پروفائلز کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان سب میں ایک خوبی کامن ملے گی اور وہ خوبی ہے وکٹ پر موجود ہونا‘ یہ تمام کھلاڑی اگر کرکٹر نہ ہوتے‘ گراؤنڈ میں نہ ہوتے اور وکٹ پر موجود نہ ہوتے تو یہ کبھی یہ اعزاز حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
آپ فرض کریں دنیا کے ایک اوور میں چھ چھکے لگانے والے پہلے کھلاڑی سرجیری بے احتیاطی سے کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو جاتے یا جب انھیں کھیلنے کے لیے میدان میں بھجوایاجا رہا تھا تو یہ انکار کر دیتے یا یہ کپتان کے ساتھ لڑ پڑتے یا یہ اس دن بیمار پڑ جاتے یا 90 فیصد لوگوں کی طرح نخرے شروع کر دیتے تو کیا ہوتا؟
کیا دنیا انھیں ’’گریٹیسٹ کرکٹر آف آل ٹائم‘‘ کا ٹائٹل دیتی اور کیا یہ اسپورٹس کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے؟ شاید کبھی نہیں‘ دنیا بھر کے ریکارڈ ہولڈرز اور کام یاب لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ لوگ صحیح وقت پر صحیح جگہ ہوتے ہیں اور یہ ان کی بڑی خوبی ہوتی ہے‘ پنجابی زبان کا محاورا ہے ’’جاگنے والوں کی بھینس ہمیشہ کٹی دیتی ہے‘‘
اولیاء کرام کی روایات ہیں اللہ کے کرم کا نزول صبح صادق کے وقت ہوتا ہے جو اس وقت جاگ رہا ہوتا ہے وہ منزل پا جاتا ہے‘ اسی طرح بادشاہوں کی روایت تھی جب کسی بادشاہ کے بچنے کی امید نہیں رہتی تھی تو تمام شہزادے ہر وقت بادشاہ کے سرہانے بیٹھے رہتے تھے‘ بادشاہ ان میں سے کسی ایک کو اگلا بادشاہ منتخب کر دیتا تھا جب کہ اس رائیٹ ٹائم پر رائیٹ جگہ نہ ہونے والے شہزادے محروم رہ جاتے اور وہ بعدازاں نئے بادشاہ کے ہاتھوں مارے جاتے تھے یا پھر انھیں اشوک اعظم یا اورنگزیب عالمگیر کی طرح اپنے بھائیوں سے جنگ لڑنا پڑتی تھی اور انھیں قتل کرنا پڑتا تھا۔
ولایت کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے جب کوئی ولی یہ نعمت کسی کو سونپنا چاہتا ہے تو وہ دائیں بائیں دیکھتا ہے اور اسے اس وقت جو بھی نظر آجاتا ہے وہ اسے ولایت سونپ کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے یعنی رائیٹ ٹائم پر ایٹ رائیٹ پلیس‘ صحیح وقت پر صحیح جگہ اور آپ کو وہ مقام مل گیاجس کے لیے لاکھوں کروڑوں لوگ دہائیوں تک کوشش کرتے رہتے ہیں۔
میں 2001 میں ’’سیلف ہیلپ‘‘ کے بزنس میں آیا اور 2010 میں ’’میڈیم بزنس مینوں‘‘ کو اپنی ڈومین بنا لیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ بڑے بزنس مینوں کے پاس مشورے کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے‘ یہ یورپ اور امریکا سے ایکسپرٹس بلا کر اپنے منیجرز کو ٹرینڈ کرا لیتے ہیں‘دوسری طرف چھوٹے بزنس مینوں کے پاس اسٹرکچر ہوتا ہے اور نہ ہی اسٹاف لہٰذا انھیں ٹریننگ اور مشورے دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ میڈیم بزنس مین بری طرح پھنس جاتے ہیں‘ ان کے پاس فارن کنسلٹنٹس کے لیے سرمایہ اور جرأت نہیں ہوتی چناں چہ یہ ایک لیول کے بعد پھنس جاتے ہیں۔
پاکستان ایسے بزنس مینوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے‘ ہم نے اسے فوکس کر لیااور ہر ماہ مری اور ملک کے بڑے شہروں میں بزنس سیشن کرنے لگے‘ میں اب تک ان سیشنز کی وجہ سے ہزاروں بزنس مینوں اور ان کے خاندانوں سے مل چکا ہوں‘ ہمارے بے شمار مستقل کلائنٹس بھی ہیں‘ اسی طرح ہفتے میں پانچ دن پرسنل سیشنز بھی چلتے رہتے ہیں۔
ہم نے ان سیشنز میں محسوس کیا ہم میں سے زیادہ تر لوگ جلد بازی کا شکار ہیں‘ ہم زور لگاتے ہیں لیکن جب رزلٹ نہیں آتا تو ہم مایوس ہو کر فیلڈ چھوڑ دیتے ہیں‘یہ غلطی ہماری تباہی کی اصل بنیاد ہے۔
میں اپنے سیشن فیلوز کو صرف ایک مشورہ دیتا ہوں ’’آپ بس وکٹ پر کھڑے رہیں‘ ورلڈ ریکارڈ خود چل کر آپ کے پاس آئے گا‘‘ اور آپ یقین کریں میری سیلف ہیلپ کی زندگی میں آج تک ایک بھی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے یہ مشورہ مانا ہو اور اسے فائدہ نہ ہوا ہو اور اس نے آ کر میرا شکریہ ادا نہ کیا ہو۔
ہمارے پاس ناکامی کے خوف میں مبتلا اسٹوڈنٹس آتے ہیں‘ ہم انھیں صرف دو مشورے دیتے ہیں‘ آپ نے پڑھائی نہیں چھوڑنی خواہ آپ پوری زندگی بیک بینچ پر بیٹھتے رہیں ‘ آپ روز اسکول‘ کالج یا یونیورسٹی جائیں گے اور آپ فیل ہونے کے بعد دوبارہ امتحان دیں گے‘آپ زیاہ سے زیادہ فیل ہو جائیں گے‘ فیل ہونے کے خوف سے پیپرزنہیں چھوڑنے چاہییں‘ آپ یقین کریں صرف ان دو مشوروں پر عمل کرنے سے بے شمار اسٹوڈنٹس کی زندگیاں بدل گئیں‘ ان کے دل سے ناکامی کا خوف ختم ہو گیا۔
دنیا میں ناکامی اور کام یابی کے درمیان صرف خوف کی دیوار ہوتی ہے‘ آپ جس دن یہ گرا دیتے ہیں اس دن کام یابی کا تاج آپ کے سامنے پڑا ہوتا ہے‘ ہمارے پاس ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا بزنس مین آتا ہے جو اپنی دکان یا فیکٹری کو تالہ لگانے کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے‘ میں اس سے عرض کرتا ہوں وکٹ نہ چھوڑیں بس کریز پر کھڑے رہیں‘ کام یابی آپ سے زیادہ دور نہیں ہے‘ چند دن رک جاؤ اللہ ضرور کرم کرے گا۔
ان میں سے جو یہ مشورہ نہیں مانتے ‘ ان کا نقصان بڑھتا چلا جاتا ہے اور جو مان لیتے ہیں وہ سرجیری کی طرح چھ گیندوں پر چھ چھکے لگا دیتے ہیں بالکل اسی طرح جو لوگ تعلق توڑنا چاہتے ہیں‘ بیویوں یا خاوندوں کو چھوڑنا چاہتے ہیں‘ بچوں اور والدین سے کنارہ کرنا چاہتے ہیں یا بہن بھائیوں اور دوستوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں میں انھیں بھی مشورہ دیتا ہوں آپ وکٹ نہ چھوڑیں۔
عین ممکن ہے آپ کی کام یابی کی ٹرافی اسی شخص کے ہاتھ میں ہو اور اگر یہ چلا گیا تو آپ کی ٹرافی چلی جائے چناں چہ وکٹ پر ڈٹے رہیں‘ آپ کو عن قریب وہ مل جائے گا جس کی تلاش میں آپ پوری زندگی مارے مارے پھرتے رہے۔
میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ بہت کام یاب بزنس مین تھے اور اپنے والد کا بے انتہا احترام کرتے تھے‘ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے والد کو ساتھ لے کر جاتے تھے‘ والد زیادہ بوڑھے ہو گئے تو یہ ان کے دو ذاتی ملازموں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔
انھوں نے والد کے لیے لگژری وین امپورٹ کی تھی‘ اس وین میں چار بزنس کلاس سیٹیں لگی تھیں‘ وہ والد کے ساتھ اس وین میں سفر کرتے تھے‘ میرے پاس بھی آتے تھے‘ میں نے ان سے والد سے اس عقیدت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا ہماری والدہ بہت سخت مزاج اور ان پڑھ تھیں‘والد پوری زندگی والدہ کے ہاتھوں تنگ رہے لیکن انھوں نے صرف میری خاطر والدہ کو برداشت کیا۔
یہ کسی بھی وقت یہ رشتہ توڑ کر نئی شادی کر سکتے تھے مگر یہ میرے لیے وکٹ پر کھڑے رہے یہاں تک کہ والدہ کا انتقال ہو گیا لیکن اس کے باوجود انھوں نے میری وجہ سے دوسری شادی نہیں کی‘ میرے والد نے تیس سال میرا ہاتھ نہیں چھوڑا اوراب میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا ہوں‘ میں ان کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا۔
اسی طرح پاکستان کی ایک بڑی انشورنس کمپنی کے چیئرمین نے مجھے اپنا واقعہ سنایا‘ ان کے بقول ’’میں ایک بار بزنس میں بری طرح پھنس گیا اور میں نے بزنس بند کر کے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا‘ میں بزنس بند کرنے کے لیے لاہور سے کراچی جا رہا تھا‘ جہاز میں میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے‘ وہ خاموشی سے اخبار پڑھ رہے تھے‘ میں بے چینی سے بار بار سیٹ پر کروٹیں بدل رہا تھا‘ بزرگ نے اخبار تہہ کیا اور میری طرف دیکھ کر پوچھا ’’بیٹا آپ مجھے پریشان دکھائی دے رہے ہیں خیریت ہے؟‘‘
میں اندر سے بھرا پڑا تھا‘ میں نے اپنی ساری پریشانی ان کے سامنے اگل دی‘ وہ سنتے رہے‘ میں جب اپنی سنا چکا تو انھوں نے مسکرا کر کہا‘ بیٹا یہ بات پلے باندھ لو بزنس مین کبھی نقصان میں نہیں رہتا‘ ہمارا نقصان بھی سرمایہ کاری ہوتا ہے‘ یہ ہمیں کئی گنا ہو کر واپس ملتا ہے بس دکان کھلی رکھو‘ گاہک بھی آئے گا اور فائدہ بھی ضرور ہو گا‘‘
مجھے ان کی بات اچھی لگی‘ میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انھوں نے بتایا ’’میرا نام یوسف شیرازی ہے‘ میں ہونڈا اٹلس کا مالک ہوں‘ مجھ پر بھی ایسے درجنوں وقت آئے تھے لیکن میں نے وکٹ نہیں چھوڑی لہٰذا آج ملک کے تمام کام یاب اور بااثر لوگ میری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں چناں چہ وکٹ نہیں چھوڑنی خواہ کچھ بھی ہو جائے‘‘۔