61

دہشت گرد عناصر کی تخریب کاری اور بلوچ عوام

ریاست کے طاقت ور اداروں ہی کو نہیں بلکہ چند عزیز ترین دوستوں کو بھی بلوچ نوجوانوں کے جذبات سے آگاہ کرنے کی کوشش میں کئی برسوں تک ناراض کرتا رہا ہوں۔ معاملات مگر اب گھر میں بیٹھ کر لفظوں کی جگالی کرنے والوں کی خیالی دنیا سے قطعاً مختلف ہو چکے ہیں۔ ہفتے کی صبح کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکہ ہوا۔ اس کی ذمہ داری بھی ایک کالعدم تنظیم نے اپنے سر لے لی ہے۔ دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ اس کا ریاست کے تحفظ کے لیے تیار کیے چند اہل کار تھے۔ بارودی مواد مگر جب پھٹتا ہے تو فقط اسے پھاڑنے والوں کے اہداف تک ہی محدود نہیں رہتا۔ اتوار کی صبح آئے اخبارات میں 26 شہادتوں کا ذکر ہے۔ دس کے قریب زخمیوں کی حالت بھی تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کی اس ہولناک واردات کا حتمی نشانہ بالآخر عام شہری ہی ثابت ہوںگے جو روزمرہ زندگی کے تقاضوں کے سبب دھماکے کے وقت ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔

ہفتے کے روز ہوئی واردات کی سینہ پھلا کر ذمہ داری قبول کرنے والوں کو یہ بات ہرگز سمجھ نہیں آئے گی کہ حالیہ چند مہینوں سے اپنے ’احساسِ محرومی‘ کو اندھی نفرت میں بدلنے کے بعد دہشت گردی کے جس چلن کا انھوں نے انتخاب کیا ہے کہ وہ ریاست کو جھکانے کے بجائے مزید سخت گیر اقدامات کرنے کے جواز فراہم کررہا ہے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ بلوچستان میں دہشت گردی کو کسی ’تناظر‘ میں ر کھ کر بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو نفرت و حقارت سے ’دہشت گردوں کے سہولت کار‘تصور کیے جائیں گے۔ دنیا بھر میں ’اپنے حقوق‘ کے لیے جدوجہد کرنے والے گروہوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ان کی مشکلات معاشرے کے وسیع تر حلقے اور خاص طورپر وہ گروہ جو ریاستی پالیسیاں تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ہمدردی کے احساس کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ روزگار کے لیے بلوچستان گئے غریب مزدوروں کا بسوں سے اتار کر وحشیانہ قتل مگر ’حقوق‘ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مظلوم کے بجائے ظالم بنا کر پیش کرتا ہے۔ معاملہ یہ صورت اختیار کر لے تو ریاست اپنے ’شہریوں‘ کے جان ومال کے تحفظ کے نام پر کسی بھی انتہا تک جانے کو ڈٹ جاتی ہے۔ آنے والے دنوں میں لہٰذا بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ ’مسنگ‘ شمار ہو سکتی ہے۔

کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش دھماکے سے قبل ہی پارلیمان سے تقاضا ہو رہا تھا کہ وہ ریاست کے اداروں کو ایسے افراد کم از کم 3 ماہ تک گرفتار کرنے کا حق فراہم کر دے جو مبینہ طورپر دہشت گردوں کے ممکنہ سہولت کار ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سے فقط مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے اس کے خلاف دہائی مچائی۔ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے والی تنظیمیں وطن عزیز میں ’غیر ملکی سرمایہ پر چلائی این جی اوز‘ ٹھہرائی جا چکی ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ حالیہ برسوں میں کمزور سے کمزور تر ہوا ہے۔ ہفتے کے روز جو کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر واقعہ ہوا ہے اگرچہ وہ حکومت کو مذکورہ حق فراہم کرنے میں آسانیاں پیدا کرے گا۔

اس واقعہ کی ذمہ داری لینے والے اگرچہ مجھ جیسے سادہ لوح کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ دہشت گردی کے واقعات سے مشتعل ہوئی ریاست کے جارحانہ اقدامات ان کے لیے ’فدائی رضاکاروں‘ کی نئی کھیپ تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ وحشت ودہشت کا دائرے میں ہوا سفر ہے جو پہلے چکر ہی سے خوف ناک سے خوفناک ہوتا چلا جاتا ہے۔ ’فدائی رضا کاروں‘ کے منتظر افراد ابھی تک دریافت نہیں کر پائے ہیں کہ عام بلوچ گھرانے اب ریاست ہی نہیں بلکہ ان سے بھی خوف کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی نوجوان لڑکوں بلکہ لڑکیوں کے والدین بھی اگر معاشی طورپر برداشت کرسکتے ہیں تو گزشتہ کئی مہینوں سے اس کاوش میں مبتلا نظر آئے کہ ان کے بچے اور بچیاں بلوچستان سے کہیں دور کسی شہر میں جاکر تعلیم حاصل کریں اور اگر ممکن ہوتو بالآخر وہیں مستقل آبادی کی راہیں بھی تلاش کر لیں۔ بلوچستان میں رہتے ہوئے ’اپنے کام سے کام رکھنے‘ کی گنجائش باقی نہیں رہی اور یہ دعویٰ میں بے شمار ٹھوس واقعات بغور سننے کے بعد کر رہا ہوں۔

خودکش دھماکے دہشت گردی کا ایک معروف حربہ ہیں۔ اسے کئی برسوں تک سری لنکا کے تامل انتہا پسندوں نے کلیدی ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ مذکورہ حربے نے مگر سری لنکا کی ریاست کو جھکانے کے بجائے وہاں کی سنہالی اکثریت کو انتہا پسند بنادیا۔ انھوں نے ایسے سیاسی رہنماﺅں کو کامل اختیار عطا کیا جو تامل نسل وزبان ہی ختم کرنے کا عہد باندھتے تھے۔ تمل انتہا پسندی کا اس کے طفیل خاتمہ تو ہوگیا مگر اسے ختم کرتے ہوئے سری لنکا کی ریاست بھی دیوالیہ ہوگئی۔ آج سنہالی اور تمل افرادروز کی روٹی روز کمانے کی فکر میں یکجا ہو چکے ہیں۔ بلوچ انتہا پسند اگرچہ فی الوقت اپنے ہی معاشرے اور اس کی معاشی زندگی کے لیے’خود کش‘ بنے ہوئے ہیں۔ ٹرینوں اور بسوں پر حملے جاری رہے تو بلوچستان میں دیگر علاقوں سے ہنرمند آنا ترک کر دیں گے۔ ہنر مند اور دیہاڑی دار مزدوروں کی عدم موجودگی سے بلوچ علاقوں میں متوسط طبقہ کمزور سے کمزور تر ہو گا۔ درمیانے درجے کے کاروباری افراد بھی معدوم ہو جائیں گے۔ ’عظیم تر معاشی منصوبوں‘ کو مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ریاست اپنی بھرپور قوت ووسائل کے استعمال سے انھیں جاری رکھنے کے لیے ’سکیورٹی کوریڈور‘ (جنھیں محفوظ سرنگیں بھی کہا جا سکتا ہے) تشکیل دینے پر توجہ مرکوز رکھے گی اور بتدریج بلوچ معاشی دھارے سے کاملاً جدا ہو سکتے ہیں۔ دہائیوں سے ریاست اور انتہا پسندوں کے مابین جھگڑوں کے دائروں میں مقید ہوئے بلوچ عوام کی بے پناہ اکثریت رحم کی مستحق ہے۔ ان کے ’اپنے‘ ہی مگر اب انھیں چین سے زندہ رہنے نہیں دے رہے۔

بشکریہ نواےَ وقت