پولیس کسی بھی معاشرے میں امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے مگر بدقسمتی سے ایک طویل عرصہ سے اس عوامی عدم اعتماد کا شکار ہے جو عوام کے ذہنوں میں اک عرصہ سے سرایت کر چکا ہے اس کی بڑی بڑی وجہ پولیس میں پائی جانے والی وہ چند کالی بھیڑیں ہیں جن کے کردار نے پولیس کا مورال گرادیا ہے،منڈی بہاؤالدین کے گاؤں ”کھائی“میں جانا ہوا تو وہاں کے لوگوں نے ڈی پی او احمد محی الدین کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے،ضلع لیہ میں بھی محض چند روز قبل ایک نئے ڈی پی او محمد وسیم کی تعیناتی ہوئی ہے اور انہوں نے ایک عام سائل کیلئے جس طرح کے مثالی اقدامات کا آغاز کیا ہے اس سے لیہ کے عوام اور پولیس کے درمیان جو فاصلے سابق کرپٹ ڈی پی او کی تعیناتی کے دوران پیدا ہوئے انہیں سمیٹنے میں مدد ملے گی ایک عام سائل کو جس طرح کسی مسئلہ کیلئے ایک آفیسر تک رسائی ممکن نہ تھی اور جن مشکلات کا سامنا تھا محمد وسیم نے آتے ہی ان مسائل اور مشکلات کی اپنے احکامات سے تلافی کی ہے ان کا سب سے بڑا قدم پولیس اہلکاروں کا احتساب کا عمل ہے جس میں انہوں نے 2سب انسپکٹر ز ایک اے ایس آئی اور ایک کانسٹیبل کی سروس ضبط کرکے سزا کا عمل شروع کیا ہے اس سے عوام کے اندر ایک انتہائی مثبت تاثر ابھرا ہے،میں ان کا سب سے بڑا قدم جو میرٹ پر پولیس اسٹیشنز پر انسپکٹرز کی بطور ایس ایچ او تعیناتی ہے اس سے سینئر پر جونئرز کی ترجیح کا خاتمہ ہوا ہے مثال کے طور پر لیہ سٹی میں ادریس خان کو جو انسپکٹر ہیں ایس ایچ او تعینات کرنا تعلیم یافتہ حلقوں میں ایک مثبت بازگشت ہے لیکن سابق ڈی پی او اسد الرحمان نے جس طرح تھانوں کوکمائی کے اڈے بنائے رکھا اور کئی پولیس اہلکاروں کو ”اپنا کماؤ پتر“بنا کر رکھا وہ گند ہر تھانہ میں کسی نہ کسی تفتیشی اے ایس آئی،سب انسپکٹر کی شکل میں بدستور موجود ہے اور اس کی سرپرستی میں ان اہلکاروں نے جس طرح لیہ کے عوام کی چادر چار دیواری،لوٹ مار کیلئے ناجائز مقدمات کے اندراج کو معمول بنائے رکھا اور اپنی اس ناجائز کمائی سے کاروں کے شو رومز اور بنگلے بنا لئے اور قیمتی گاڑیاں معمولی اہلکاروں کے نیچے آگئیں کیا ان کا کوئی احتساب ہو سکے گا؟ ضلع لیہ کے ایک درویش صفت ایس پی جو بعد ازاں ڈی آئی جی کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے احمد مبار ک احمدمرحوم کہا کرتے تھے کہ پولیس اہلکار کا احتسابی عمل ہی اسے عوام کی نظروں میں معتبر بنا سکتا ہے لیہ سٹی میں اے ایس آئی چوہدری نذیر نے تھانہ کی حدود میں اپنا ڈیرہ قائم کر رکھا ہے جہاں ملزمان اور ان کے لواحقین سے مک مکا ہوتا ہے اور اس ما ضی گواہ ہے کہ کسے اس کی سرزنش ہوتی رہی،یہ آج بھی حوالات میں بند مجرمان سے بھتہ مانگتا ہے ڈی پی او اسد الرحمان نے جس طرح پولیس اہلکاروں کو عوام کو ذبح کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اس نے لیہ کے عوام میں اس تاثر کو مضبوط کیا کہ لیہ ایک پولیس سٹیٹ ہے جہاں کوئی لاء اینڈ آرڈر نہیں اسی طرح لیہ کے بہت سے پولیس اہلکار ”ہنی ٹریپ“جیسے دھندے میں ملوث ہیں جنہوں نے باقاعدہ پیشہ ور عورتیں رکھی ہوئی ہیں ان عورتوں کے ذریعے عام شہریوں کو نہ صرف گناہ کی ترغیب دی جاتی ہے بلکہ جب کوئی شہری ان عورتوں کے جال میں پھنس جاتا ہے تو یہ عورتیں جو پولیس اہلکاروں سب انسپکٹر عبد الرؤف،شاہدعباس ،عرفان باجوہ کی کمائی کا ذریعہ ہیں کے ذریعے شہریوں سے بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں اور متاثرہ فریق کو اپنے جال میں پھنسا کر اس سے ملنے والی رقم ان لے پالک عورتوں اور مذکورہ پولیس اہلکاروں کی کمائی ہوتی ہے ایسے دلالوں کے خلاف کارروائی کی اشد ضرورت ہے لیہ میں رحمان آباد میں مذکورہ سب انسپکٹر عبدالرؤف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک عورت کے گھرجاگھسے ایک اہلکار نے عورت کو خوفزدہ کرنے کیلئے فائر کیا جو عبدالرؤف کے پاؤں میں جالگا وہاں پڑی بجری اڑی اور اس عورت کو لگنے سے وہ بھی زخمی ہوئی اس عورت کو ڈرا دھمکا کر بیان حلفی لے لیا گیا ایسے پولیس اہلکاروں پر سخت شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے،کرپٹ پولیس اہلکاروں کے تحفظ کیلئے نہ صرف مقامی بااثر مافیا (جس نے اپنے ناجائز کام نکلوانے ہوتے ہیں)سرپرستی کرتا ہے بلکہ ڈی پی او آفس کی ہر برانچ میں ان کے تحفظ کیلئے کسی نہ کسی کرسی پر کوئی اہلکار موجود ہے دفتر میں موجود شیخ مجیب او اے ایس آئی برانچ میں اپنی سروس کے ابتدائی ایام سے تعینات ہے اور کسی پولیس اسٹیشن پر اس کی ایک دن کی بھی سروس نہیں،اس کا عمل دخل چونکہ تبادلہ جات کے حوالے سے رہا ہے ماضی میں یہ بھاری رقوم کے عوض من پسند ایس ایچ اوز کی تعیناتیاں کراتا رہا ہے،اکمل اے ایس آئی جو کہ ڈی پی او آفس میں ریڈر ہے یہ باقاعدہ ہ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کرتا ہے،انچارج آئی ٹی برانچ آصف جو کہ اے ایس آئی ہے اس کی بھی کسی تھانہ میں کوئی سروس نہیں،ذوالفقار قیصرانی جو کہ اکاؤ نٹنٹ ہے تونسہ شریف کے پولیس اہلکاران کی تعیناتیاں رقوم کے عوض کراتا ہے ایس او پیز کے تحت دو سال کے بعداس کا دوسرے ضلع میں تبادلہ ضروری ہے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ذوالفقار قیصرانی کی طویل تعیناتی کا پس منظر کیا ہے؟ یہ باقاعدہ ایک لابی ہے جن میں پی ایس او شریف ملانہ کی طویل سروس دفتر کی ہے، سکیورٹی برانچ میں تعینات اہلکار سی ڈی آر نکلوا کر لوگوں کو بیچتے رہے ہیں،یہ تمام اہلکار سابق ڈی پی او کے رائیٹ ہینڈتھے اور تمام کرپٹ ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے بعد ان سے منتھلیاں وصول کرتے ہیں،ڈی پی او لیہ محمد وسیم کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ سروس میں آنے سے قبل مذکورہ کرپٹ اہلکاروں کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟تاہم اگلے کالم میں نئے تعینات ہونے والے ڈی پی او کی کارکردگی کو زیر بحث لاؤں گا
41