85

میری کہانی!

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس زمانے میںسردی بہت ہوتی تھی جب شہر میں ٹوٹل دو کاریں ہوںویگنیں، بسیں اوررکشے نہ ہوں، آبادی کم ہو، درخت زیادہ ہوں اور اوپر سے پائوں میں جرابیں بھی نہ ہوں، کوٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو، بس پاجامے اور قمیض پر پتلا سوئیٹر پہنا ہو تو سردی نہیں لگے گی تو کیا لگے گا؟ سردیوں میں صبح اسکول جاتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری رہتی تھی اور دانت مسلسل بجتے رہتے تھے ، لیکن مزا آتا تھا۔ میں اس سردی کیلئے ترس گیا ہوں۔ اب سردی کی جگہ ’’سرد مہری‘‘نے لے لی ہے۔ ایم بی ہائی اسکول کے ساتھ سکھوں کا گوردوارہ تھا جسے ’’گورو کوٹھا‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب مشرقی پنجاب کے مختلف شہروں سے مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی ٹرینیں پاکستان پہنچیں تو اشتعال کی لہر نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چنانچہ وزیر آباد کے اس گورو دوارے کوبھی آگ لگا دی گئی۔ میری عمر اس وقت چھ سال سے زیادہ کی ہوگی۔ مگر میں حیران ہوں کہ ایک دھندلا سا منظر ابھی تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری والدہ مرحومہ اور میری بہنیں اپنے مکان کی چھت پر کھڑی گورو دوارے سے اٹھتے شعلے اور دھواں دیکھ رہی تھیں اور زار و قطار رورہی تھیں اور میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کیوں رو رہے ہیں؟ شنید ہے کہ گورو دوارے میں پناہ لینے والے کچھ لوگ ان شعلوں کی زد میں آکر زندہ جل مرے تھے۔ فسادات ہی کے دنوں میں ایک روز دوپہر کے وقت کسی شخص کےبھاگنے کی آواز سنائی دی اور تھوڑی دیر بعد یہ آواز ہمارے گھر کی ڈیوڑھی پر آ کر رک گئی اور پھر ایک چھناکے کے ساتھ ایک تھیلی ڈیوڑھی میں آن گری اور ساتھ میں یہ آواز بھی سنائی دی ’’قاسمی صاحب! یہ زیورات آپ رکھ لیں‘‘ زیورات کی یہ تھیلی لوٹ مار کے دوران روشن نام کے ایک تیل فروش کے ہاتھ لگی تھی۔ پولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس نے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچا کہ یہ زیورات پولیس کے ہاتھ لگنےکی بجائےکسی مہاجر خاندان کے کام آنے چاہئیں جو اس سے کہیں زیادہ زیورات اپنے پرانے گھروں میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ چنانچہ میرے پھوپھی زاد بھائی سید مسعود شاہ قادری مرحوم نے فوراً لپک کر یہ تھیلی اٹھائی لیکن والد ماجد نے جو حلال حرام کے معاملے میں تقویٰ کی سرحدوں کو چھوتے تھے یہ تھیلی ان سے چھین کر اگلے روز سرکاری خزانے میں جمع کرا دی یا شاید اس کو اسی وقت واپس گلی میں پھینک دیا مجھے تفصیل اچھی طرح یاد نہیں ہے۔1951ءمیں شہید ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسۂ عام میں سید اکبر نامی بدبخت نے گولی مار کر شہید کر دیا تو پورا وزیر آباد غم کی شدید لہر کی لپیٹ میں آگیا۔ اس زمانے میں سہگل کی آواز میں ایک گانا بہت مشہور تھا۔ ؎

غم دیئے مستقل، کتنا نازک ہے دل

یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

چنانچہ ہماری قریبی مسجد میں اس گانے کی طرز پر کئی دن تک شہید ملت کا یہ نوحہ پڑھا جاتا رہا۔

سید اکبر نے جلسے میں آ کر

اپنے ہاتھوں سے گولی چلا کر

قوم کو دکھ دیا بے ٹھکانہ

ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

میرے حافظے میں تانگے کے گھوڑے کی وہ ٹاپ بھی محفوظ ہے جو کبھی کبھی رات کےسناٹوں میں سنائی دیتی تھی۔ وزیر آباد کا کوئی باسی یا کوئی مہمان آخری ٹرین سے واپس پہنچتاتو سوئے قصبے کی طلسماتی فضا میں گھوڑا ایک اور پراسرار سا رنگ بھر دیتا ۔ جس روز لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اس روز بھی یہ ٹاپ سنائی دی تھی۔ اس روز تانگہ کچہری سے خالی آیا تھا۔اچھے برے لوگ ہر دور اور ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ سن پچاس کی دہائی پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے لیکن برائی افراد تک محدود تھی اور اس دور میں اسے معاشرتی رویے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ چنانچہ لوگ برائی سے نفرت کرتے تھے۔ جو اس میں ملوث ہوتے وہ اس پر فخر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تھے۔ فلموں میں ولن کے پردۂ اسکرین پر آتے ہی لوگ اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کردیتے تھے۔ اب فلموں میں اور معاشرے میں ولن نے ہیرو کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ پردۂ اسکرین پر دیکھ کر اُسے تالی بجائی جاتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں یہ بدکردار شخص صاحبِ عزت نظر آتا ہے۔ وزیر آباد میں ذرا سا برا آدمی بھی نظروں میں آ جاتا تھا۔ ہر شخص اس پر انگلی اٹھاتا اور یوں اس کیلئے کھل کھیلنا مشکل ہو جاتا۔دوسرے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا، ویسے بھی نیا نیا ملک بنا تھا، اسے بےشمار مسائل کا سامنا تھا، اولین ترجیح لٹے پٹے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور تباہ شدہ سیٹ اَپ بحال کرنا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لوگوں نے تعمیر وطن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جمہوری نظام کی شروعات تھی چنانچہ حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہتی تھیں، کہا جاتا تھا کہ نہرو اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی ہماری حکومت بدل جاتی ہے۔ اس طرح کی باتیں سیاسی ناپختگی کے زمرے میں آتی تھیں۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں روز حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ ہمارے طالع آزمائوں نے عوام کی اس سوچ سے فائدہ اٹھایا اور 1953ءمیں ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کرنے کی سازشیں شروع کردیں اور بالآخر 1958ءمیں ملک پر قابض ہو گیا اور دس سال حکومت کرنے کے بعد جب عوامی تحریک کے نتیجے میں اسے تخت و تاج سے دستبردار ہونا پڑا تو یحییٰ خان کو تخت پر بٹھا دیا۔ دس سال میں ملک کی چولیں ہلا دی گئی تھیں، ایک ذرا سے دھچکے سے پوری عمارت نیچے آن گری۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑ گئے اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔

میں بتا رہا تھا کہ دوسرے قصبات کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا بجلی اور دیگر سائنسی ایجادات کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اندھیرا ہونے سے پہلے رات کا کھانا کھا لیتے تھے۔ بچے کھیلنے کیلئے نکل جاتے۔ عورتیں ایک جگہ اکٹھی ہو کر گپ شپ کرتیں اور عام لوگ بازاروں میں پان سگریٹ کی دکانوں پر یا تھڑوں پر بیٹھ کر حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے۔ اس دور میں نجی زندگی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ بین الاقوامی معاملات سے لیکر لوگوں کے گھریلو حالات تک موضوع گفتگو بنتے۔ اس حوالے سے کسی برے آدمی کا شہر میں جینا محال ہو جاتا تھا۔ مین بازار کا رہائشی ایک کبوتر باز شہر میں بہت بدنام تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اسے اپنے سے کم عمر لوگوں کی صحبت بہت پسند تھی اور اتفاق یہ کہ وہ اپنے سے کم عمر ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ وزیر آباد شہر کا دوسرا یا تیسرا قتل ہوگا جو میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ ان دنوں عید میلاد النبیؐ کا جلوس شہر میں بہت دھوم دھام سے نکلتا تھا۔ یہ جلوس بیل گاڑیوں پر نکالا جاتا اور بہت سے نوجوان اونٹوں اور گھوڑوں پر عربی لباس میں ملبوس جلوس کے ساتھ ہوتے۔ جلوس میں کرنال کے مہاجرین کا ایک دستہ تلواروں کے ساتھ گتکے بازی کا مظاہرہ کرتا، تحریک کے دوران خاکسار بھی اپنی خاکی وردی میں ملبوس کاندھوں پر بیلچے رکھے ’’چپ راست‘‘ کرتے، جلوس میں مارچ کرتے نظر آتے۔ عید میلاد النبیؐ کا یہ جلوس شیعہ سنی مل کر نکالتے تھے۔ پان سگریٹ فروش صابر شاہ بیل گاڑی پر سوار اپنی خوبصورت آواز میں نعت خوانی کرتا۔(جاری ہے)

بشکریہ اردو کالمز