20

چوبیس گھنٹے دھواں دھواں

چند دنوں سے شام یا رات کو گھر سے باہر نکلتے تو محسوس ہوتا کہ ڈوبتا ہوا سورج دھندلا سا ہوتا تھا اور طلوع ہوتا ہوا چاند بھی ماند سا۔ ہوا میں جو تازگی محسوس ہونا چاہیے ، وہ بھی نہیں ہوتی اور موسم کی ایپ میں جب چیک کرتے ہیں کہ ہوا میں آلودگی کا تناسب کیا ہے تو وہ بتاتی ہے کہ ہوا کس قدر آلودہ ہے حالانکہ اس کا اندازہ تو فقط سانس لینے سے بھی ہوجاتا ہے۔

اگر ایپ میں چیک کیا جائے تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ دنیا کے چند آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ہمارے ملک کے کئی شہر شامل ہیں اور تو اور فہرست میں سب سے اوپر ہمارا شہر لاہور ہے۔ ایک جاننے والے تین دن پہلے لاہور سے آئے تو ان کے چہرے پر ایسی مسرت تھی جیسے کسی قید سے چھوٹ کر آئے ہوں ۔ کہنے لگے کہ انھوں نے جانے کتنے دن کے بعد نیلا آسمان دیکھا ہے، یعنی اسلام آباد کا آسمان۔ وہ آسمان جسے ہم اسلام آباد کے رہنے والے آلودہ کہتے ہیں ، اسے لاہور سے آنیوالے صاف کہتے ہیں۔

کئی بار یہ سنتے ہیں کہ لاہور میں دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور فصلوں کی باقیات کے جلانے کے باعث یہ فضائی آلودگی ہوتی ہے جس کا نام چند سالوں میں عرف عام میں، smoke & fog دھویں اور دھند کو ملا کر سموگ رکھا گیا ہے ۔ ہر حکومت آ کر نئے وعدے کرتی ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے مالکان کو یہ کر دیا جائے گا اور وہ کردیا جائے گا مگر حال ہی میں لاہور میں کئی ایسی گاڑیاں نظر آئیں جو یوں لگتی تھیں جیسے کہ فضا میں دھواں چھوڑنے ہی کے فرض پر مامور ہیں۔

اگر فصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر کیا مشکل ہے کہ اس کا تدارک کیا جا سکے؟ کیا فصلیں لوگوں نے اپنے گھروں کے اندر یا کہیں خفیہ خانوں میں لگائی ہوتی ہیں یا کم رقبہ پر ہوتی ہیں کہ نظر نہیں آتیں؟ایک دلیل یہ بھی سنی ہے کہ صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ انڈین پنجاب میں جو فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں ان سے پیدا ہونے والا دھواں بھی لاہورمیں آلودگی بڑھانے میں شامل ہوتا ہے۔

اگر یہ سچ ہے تو پھر ہندوستان کا کوئی شہرآلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پرکیوں نہیں آتا؟ اس وقت اگر آپ گوگل سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتاتی ہے کہ تین دن پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے، اس کی ائیر کوالٹی انڈکس 431 کی حد تک چلی جاتی جو کہ WHO کے اسٹینڈرڈ سے چھیاسی گنا زیادہ ہے ۔

گزشتہ برس کے اعداد و شمار دیکھے جائیں توبھی آلودگی کے اسکیل پر پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ شرم آتی ہے کہ اگر ہم پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبروں پر آ بھی رہے ہیں تو کن چیزوں میں، کرپشن میں اور آلودگی میں، جرائم میں، گداگری میں، گندگی میں، آبادی کے بڑھنے کی رفتار میں، جھوٹ بولنے میں ، اسمگلنگ اور بے ایمانی میں، ملاوٹ میں اور ناقص خوراک میں، بدنظمی میں، ٹریفک قوانین توڑنے میں، غربت میں، اخلاقی اقدار کی گراوٹ میں… کاش کبھی ہمارے سروں پر بھی کوئی اچھی صفت کا تاج ہو بے شک وہ کوے کے پروں کا بنا ہوا ہو۔لاہور میںچلنے والی میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں میں بھی لوگ کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں اس کے باوجود سڑکوں پر اتنی گاڑیاں ہوتی ہیں کہ شمار نہیں ۔

آپ لاہور کے شہری ہوں یا کسی بھی اور شہر کے، باہر چند گھنٹے گزار کر گھر لوٹیں تو ایک صاف سفید کپڑا لیں اور اسے اپنے گلے اور منہ کے اندر پھیریں اور نکال کر ملاحظہ کریں ، جو حال آپ کے منہ کی اندرونی سطح اور گلے کا ہے، وہی حال آپ کے پھیپھڑوں کا ہے جہاں بالآخر جا کر سانس کا سفر تمام ہوتا ہے اور وہاں سے وہ ہوا جسے صاف ستھرا اور تازہ ہونا چاہیے کہ آپ کی صحت برقرار رہے، وہ آلودہ آکسیجن آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ اب اس لاہور میں کوئی کیا دیکھے، کچھ واضح نظر آتا ہی نہیں ۔ دھویں سے اٹی فضا، سرمئی اور سیاہ عمارتیں جو کبھی سفید عمارتیںہوا کرتی تھیں ۔ نہ چاند کھل کر چمکتا ہے اور نہ ہفتوں سورج صاف سامنے آتا ہے ۔ دونوں دھویں کے عقب سے اپنی کمزور سی روشنی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس