انسداد غربت

غربت کو ’الوداع‘ کہنے کا خواب تاحال شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی کم و بیش چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور اگرچہ معاشی ترقی کو اکثر بہت سے مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے لیکن اسے مجموعی خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے لئے بطور علاج نہیں دیکھا جا سکتا۔ آبادی کے نچلے چالیس فیصد حصے کی حالت زار پر مناسب توجہ دیئے بغیر پاکستان کی خام پیداوار ’جی ڈی پی‘ میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا بلکہ خطرہ ہے کہ مزید آبادی خط غربت سے نیچے نہ چلی جائے کیونکہ اعلیٰ طبقوں میں دولت کا ارتکاز بڑھنے کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔صرف ترقی پر توجہ مرکوز کرنا جبکہ اعلیٰ ساختی غربت کی بنیادی وجوہات کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور منطقی نہیں بلکہ یہ خود ترقی کے عمل کو کمزور کرتا ہے۔ غربت افرادی قوت کو کمزور کرکے پیداواری صلاحیت میں رکاوٹ ڈالتی ہے‘ جس میں غیر ہنر مند مزدوروں کا بڑا تناسب شامل ہے۔ غربت میں پرورش پانے والے بچے اکثر تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور غذائیت جیسے ضروری وسائل تک رسائی سے محروم رہتے ہیں، جس سے ان کے مستقبل میں ملازمت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور یہ بالآخر انفرادی اور قومی دونوں سطحوں پر معاشی پیداوار اور ترقی کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر غذائی قلت بچوں کی جسمانی اور علمی نشوونما میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً چالیس فیصد بچے کم غذائیت (اسٹنٹنگ) کا شکار ہیں، مستقبل کی افرادی قوت کی صلاحیت کو اہم چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اس طرح غربت کم ترقی کا ایک خود ساختہ چکر پیدا کرتی ہے، جس سے مواقع تک محدود اور غیر مساوی رسائی، کم پیداواری صلاحیت اور جمود کا شکار ترقی کو تقویت ملتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ترقی، سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کی حکمت عملیوں پر توجہ دی جائے جو معاشی ترقی کا اہم محرک ہیں تاہم یہ سمجھنا بھی یکساں ضروری ہے کہ معاشی ترقی غربت میں کمی اور مواقع تک مساوی رسائی کے مساوی نہیں‘ سماجی پالیسیوں اور غربت کے خاتمے کے براہ راست پروگراموں کے بغیر معاشی ترقی ناہموار رہے گی۔ ورلڈ بینک کے تخمینوں کے مطابق اگر معاشی ترقی موجودہ شرح سے جاری رہی جو عالمی سطح پر گزشتہ دو دہائیوں میں بڑھی ہے اور آمدنی میں عدم مساوات برقرار رہتی ہے تو سال 2030ء تک دنیا بھر میں غربت صرف دس فیصد کم ہو گی جو 2010ء میں سترہ فیصد تھی۔پاکستان نے اعلی معاشی ترقی کے ادوار دیکھے ہیں لیکن اس کے باوجود غربت میں کمی نہیں آئی۔ اس استقامت کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ معاشی ترقی کے باوجود غربت کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ ملک میں ساختی غربت کی پائیدار اعلی سطح صرف انفرادی حالات یا قلیل مدتی معاشی اتار چڑھاؤ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے بجائے، یہ کمزور اداروں، ناقص حکمرانی، دیرینہ عدم مساوات اور سماجی اخراج جیسے گہرے مسائل کی عکاسی کر رہی ہے۔ یہ عوامل اجتماعی طور پر ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہیں اور آبادی کے ایک بڑے حصے میں محرومی کے احساس کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں لہٰذا اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے متوازن نکتہئ نظر کی ضرورت ہے جو غربت کے خاتمے کے لئے جامع سماجی پالیسیوں کے ذریعے ترقی کو فروغ دے‘ جس میں تعلیم و صحت کی دیکھ بھال، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور جدت جیسے اقدامات شامل ہوں اگرچہ گزشتہ چند برس  کے دوران ملکی معاشی صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ پیش رفت کافی نہیں بلکہ جمود کا شکار ہے لہٰذا غربت اور عدم مساوات دونوں پر نظر رکھنے اور انہیں ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ایسی پالیسیاں تیار کی جا سکیں جو ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کر سکیں اور پائیدار، جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دیں تاہم، غربت کے اعداد و شمار میں تضادات اور سرکاری غربت کی پیمائش میں بار بار تبدیلیوں نے الجھن پیدا کی ہے اور قومی سطح پر غربت سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو بھی کم کیا ہے۔ مزید برآں‘ غربت پھیلنے کے اسباب اُور وجوہات کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ اِن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں اُور غربت کے انسداد کے بغیر قومی سطح پر انسانی ترقی ممکن بھی نہیں ہو گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ثمر قدوس۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 

 

بشکریہ روزنامہ آج