55

انقلاب کے منتظر افراد کو کسی نئے ”تنکے“ کی ضرورت

ساری زندگی صحافت کے سوا کچھ نہیں کیا اور اس دھندے کو ”گنگا“ کی طرح سمجھتے ہوئے اس میں ہاتھ گیلے کرنے سے ہمیشہ پرہیز ہی برتا۔ بدقسمتی مگر یہ ہوگئی کہ اکتوبر2011ء میں ہمارے ”ذہن سازوں“ نے عمران خان صاحب کی صورت ایک ”دیدہ ور“ تلاش کرلیا۔ خان صاحب 1996ء کے برس سیاسی میدان میں وارد ہوئے تھے۔ کئی دوستوں کی وجہ سے ان تک رسائی نصیب ہو گئی۔ میں انتہائی عاجزی سے انہیں اور ان کے پرخلوص دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہاکہ سیاست ایک گورکھ دھندا ہے۔ یہ نمک کی کان ہے۔ خاں صاحب نے کرکٹ سے شہرت اورشوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے ذریعے نیک نامی کمائی ہے۔ انہیں اپنی کرشمہ ساز شخصیت کو فلاحی کاموں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں تعلیم کا شعبہ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز تصور کیا۔ میں اپنی بات سمجھانے میں ناکام ہوکر بالآخر خاموش ہوگیا۔ خان صاحب سے مگر جب بھی کسی محفل میں یا سرِراہ ملاقات ہو جاتی تو ہمیشہ باہمی عزت واحترام سے برجستہ گپ شپ طویل ہوجاتی۔ اچانک مگر اکتوبر2011ء میں لاہور کے مینارِ پاکستان تلے تحریک انصاف کا جلسہ ہو گیا۔

مذکورہ جلسے میں ظاہر ہوئی گرم جوشی اور توانائی نے ہمارے صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت کو حیران کردیا۔ بہت دنوں سے علم سماجیات میں ایک اصطلاح چل رہی تھی-Bulge Youth – سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ آبادی کے کنٹرول پر طریقوں سے نا آشنا یا اس سے گریز کرنے والے معاشروں میں نوجوانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ غریب اور پسماندہ ممالک کی حکومتیں ان نوجوانوں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں۔ علم سے محروم ہوئے یہ نوجوان اچھی نوکریاں ڈھونڈنے کے قابل نہیں۔ جو لوگ اتفاق سے پڑھ لکھ گئے ہیں یا خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے ”تعلیمی معیار“ کے مطابق نوکریاں ڈھونڈ نہیں پاتے۔ مایوس نوجوانوں کا یہ کثیر گروہ سنجیدگی سے سمجھتا ہے کہ طاقت ور طبقات خاص طورپر سیاستدان ان کے ملکوں پر ”نظام کہنہ“ کو مسلط کئے ہوئے ہیں۔ انہیں روایتی سیاستدان کے بجائے کسی اور شعبے سے ایک ایسی کرشمہ ساز شخصیت کی ضرورت ہے جو میدان میں اتر کر نظام کہنہ کو للکارے اور پاکستان کو عمران خان صاحب کی صورت بالآخر وہ ”دیدہ ور“ مل گیا ہے جس کا نرگس (فلمی اداکارہ نہیں، ایک پھول)برسوں سے منتظر تھا۔ یوتھ بلگ جیسی اصطلاحات مجھے ذاتی طورپر مرعوب نہیں کر سکیں۔ 1960ءکی دہائی سے ایسی بے شمار اصلاحات سنی ہیں۔ فیشن کی طرح آتی اور گزر جاتی ہیں۔ لوگوں کو جھوٹے خواب دکھانے کی عادت نہیں۔ دیانتداری سے سمجھانا شروع ہوگیا کہ پاکستان کا نظام کہنہ صدیوں پرانا ہے۔ اسے محض ایک ”دیدہ ور“ بدل نہیں سکتا۔ ”تبدیلی“ کا مطلب ہتھیلی پر سرسوں اگانا نہیں ہوتا۔ نیک نیتی سے بیان کئے تحفظات نے تاہم ”انقلابیوں“ کو ناراض کردیا۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر میں بکاﺅ مشہور کردیا گیا۔

بالآخر خان صاحب ”سیم پیج“ کی برکتوں سے مالا مال ہوکر اقتدار میں آگئے۔ اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ٹی وی سکرینوں کو مجھ جیسے کرپٹ صحافیوں سے ”پاک“ کردیا۔ 2021ءکے وسط تک پہنچتے ہی مگر انہیں احساس ہواکہ اقتدار کی کلید تو باجوہ اور فیض کے پاس ہے۔ موصوف نے ان دونوں میں سے فیض کو اپنا بنانے کی کوشش کی۔ دھڑم تختہ ہوگیا۔ باجوہ مگر اس کے باوجود ان سے کامل جدائی کو تیار نہیں تھے۔ اقتدار سے فارغ ہوکر عمران خان نے شہر شہر جاکر انہیں ”میر جعفر“ پکارا جو امریکہ کے اشارے پر ان کی حکومت بدلنے کی ”سازش“ میں سہولت کار ہوئے۔ مذکورہ تہمت کے ہوتے ہوئے بھی باجوہ عمران خان سے رابطوں کے ذریعے اپنی معیادِ ملازمت میں توسیع کی گیم لگاتے رہے۔ ان کی گیم بھی مگر لگ نہیں پائی۔ ان دنوں نجانے کہاں ہوتے ہیں۔ خان صاحب البتہ ڈیڑھ برس سے مختلف مقدمات میں ملوث ہوئے اڈیالہ جیل میں بند ہیں۔

عاشقان عمران کی مناسب تعداد اب بھی مگر ”انقلاب“ کابدستور انتظارکررہی ہے۔ چند ماہ پہلے انہیں یہ شک لاحق ہوا کہ مبینہ طورپر ”فارم 47 کی بنیاد پر قائم ہوئی حکومت“ کا یک وتنہا ”سیمنٹ،ستون“ شمار ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کو 25 اکتوبر2024ء کے روز مدت ملازمت سے فراغت کے بعد گھر نہیں بھیجا جائے گا۔ بہت دیر بعد انہیں یقین آیا کہ فائز عیسیٰ کی معیادِ ملازمت میں توسیع نہیں ہورہی۔ اس امر کایقین ہوگیا تو امید باندھ لی کہ عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ صاحب ان کی جگہ چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی ”فارم 45 اور 47 والا“ کھاتہ کھول لیں گے۔ وہ کھلا تو ”فارم 47 والی حکومت“ دھڑم سے منہ کے بل گرجائے گی۔ حکومت اور اس کے سرپرستوں نے مگر آئین میں26ویں ترمیم کی گیم تیار کرلی۔ عاشقان عمران اسے روکنے میں قطعاََ ناکام رہے۔ وہ ترمیم پاس ہوگئی تو عزت مآب یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوگئے۔ اپنا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے فل کورٹ کا اجلاس طلب کیا۔ عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے سعودی عرب سے بذریعہ زوم اس میں شرکت کی۔ تاثر یہ ابھرا کہ عزت مآب یحییٰ آفریدی صاحب کی تعیناتی سے سپریم کورٹ میں نفاق پیدا نہیں ہوا۔ سوال اٹھا کہ اب آئین کی 26 ویں ترمیم سے نجات کیسے حاصل ہو۔

مذکورہ ترمیم سے نجات کے لئے لازمی ہے کہ 2007ء کی طرح ”عدلیہ آزادی“ کی تحریک چلے۔ جو تحریک چلانے کا ارادہ ہے اس کی سربراہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہی فراہم کرسکتی تھی۔ منگل کے روز مگر اس کے انتخابات کا انعقاد ہوا ہے اور نتیجاََ وہ گروپ کامیاب ہوا جس کی سرپرستی اور نگہبانی ایک زمانے میں میری محسن اور عزیز ترین دوست محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ہاتھ ہوا کرتی تھی۔ میری درویش دوست کی سرپرستی میں جمع ہوئے گروپ کو ان دنوں حقارت سے ”حکومت نواز“ پکارا جاتا ہے کیونکہ اس میں شرکت کی بدولت اعظم نذیر تارڑ ان دنوں حکومت وقت کے وزیر قانون ہیں۔ ان کے مقابلے میں حامد خان صاحب کا گروپ ہے۔ یہ تحریک انصاف کا حامی گردانا جاتا ہے۔ بہرحال حامد خان گروپ کی منگل کے روز شکست نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ممکنہ تحریک کے امکانات بھی معدوم کردیے ہیں۔ اب انقلاب کے منتظر افراد کو کسی اور ”تنکے“ کی ضرورت ہوگی تاکہ ڈوبنے سے بچا جا سکے۔

بشکریہ نواےَ وقت