57

شنگھائی تعاون تنظیم : ایک تجزیہ

15 اور 16 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک نے علاقائی سلامتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کو درپیش مشترکہ چیلنجز جیسے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈا میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور منظم جرائم کو کنٹرول کرنے میں تعاون جبکہ سیاست اور سلامتی کے شعبوں میں باہمی اعتماد اور تعاون کو مزید بڑھانا تھا۔ 2001 میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن(SCO) میں ایک کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر قائم کی گئی تھی تاکہ وسیع یوریشیائی خطے میں سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے اور استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی تصدیق اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ہورہی ہے ۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ، مزید ممالک اس تنظیم میں ڈائیلاگ پارٹنرز، مبصرین یا مکمل اراکین کے طور پر شامل ہو رہے ہیں۔بحرین، کویت، مالدیپ، میانمار اور متحدہ عرب امارات کا نئے ڈائیلاگ پارٹنرز کے طور پر شامل ہونا اس ضمن میں تازہ ترین مثالیں ہیں۔ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے مندوبین کے حالیہ اجلاس میں میزبان ملک یعنی پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے درمیان مصافحہ ہوا ہے، تاہم ان کے درمیان کسی قسم کی دو طرفہ بات چیت نہیں ہو سکی۔ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں حریفوں کے درمیان مجموعی طور پر تعلقات کئی عوامل کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا دورہ 12 برسوں میں کسی بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے، حالانکہ اس دورے کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ گزشتہ بارہ سالوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ دوروں کا فقدان رہاہے جبکہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تمام اعلیٰ سطحی مذاکرات اور رابطے تعطل کا شکار ہیں۔ جولائی 2011 میں، جناب بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے آخری وزیر خارجہ تھے جنہوں نے مارچ 2023 میں بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کیا، جبکہ میاں نواز شریفبھارت کا دورہ کرنے والے آخری پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے مئی 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے بھارتکا دورہ کیا۔بھارت کی طرف سے، سابق وزیر خارجہ سشما سوراج اور مسٹر مودی آخری شخص تھے جنہوں نے دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ 2016 کے بعد سے دونوں فریقوں کے درمیان باہمی مسائل پر کوئی دو طرفہ بات چیت نہیں ہوئی۔ اس تناظر میں صرف بھارت کے وزیر خارجہ کا پاکستان کا محض دورہ اہمیت کا حامل ہے حالانکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے بھارتکے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا لازمی تھی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے اِس اجلاس کی میزبانی سے وہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں جو اس اجلاس کے منعقد ہونے سے حاصل ہوسکتے تھے۔ سب سے پہلے، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو بہت اہمیت دیتا ہے، جس کا اظہار پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنی تقریر کے ابتدائی جملوں میں کیا ہے۔ انہوں نے ٹرانسپورٹ اور توانائی کی راہداریوں کو اقتصادی انضمام کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔ ان منصوبوں میں BRI، CPEC اور بین الاقوامی شمالی جنوبی کوریڈور (INSC) نمایاں ہیں۔ چین اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی رکن ہیں اور تنظیم کے محرک ارکان ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ روایتی گہرے تعلقات ہیں جب کہ ماضی قریب میں پاکستان اور روس نے بھی اپنے باہمی تعلقات کو وسعت دی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے شنگھائی تعاون تنظیم کے قواعد و ضوابط اور "شنگھائی روح" میں درج اصولوں پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ پاکستان کو متعدد چیلنجز بالخصوص دہشت گردی اور اقتصادی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔کچھ بیرونی عناصر پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایس سی او کونسل آف ہیڈ آف گورنمنٹ کا پاکستان میں اجلاس بلانا خود پاکستان کی کامیابی ہے۔ پاکستان نے اس قسم کے سربراہی اجلاس کے انعقاد میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔اسلام آباد میں ایس سی او کا اجلاس، عالمی کھلاڑیوں کا ایک اعلیٰ سطحی اجتماع تھا، جس نے علاقائی رابطوں میں پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔ 23ویں SCO کونسل آف ہیڈ آف گورنمنٹ نے انسداد دہشت گردی کے لیے علاقائی اقدامات، تنظیم کے بجٹ، SCO سیکرٹریٹ کے کام سے متعلق آٹھ دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں نے امریکی ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں پر انحصار کم سے کم کرنے کا عہد کیا ہے۔ اسی طرح SCO کا مقصد بیرونی مالیاتی اداروں پر بھی انحصار کم کرنا ہے۔ اس لیے ایس سی او کے مندوبین نے ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک، ایس سی او ڈویلپمنٹ فنڈ اور ایس سی او انویسٹمنٹ فنڈ کے قیام پر مشاورت کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔یہ اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایس سی او اپنے رکن ممالک کو ایک متبادل مالیاتی نظام فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے جس سے اس خطے میں ترقی کے عمل میں تیزی آئیگی جبکہ رکن ممالک کے مابین شراکت داری کے عمل میں پیشرفت کے ساتھ ساتھ مزید استحکام آئے گا۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیے گئے فیصلے، عالمی تجارت اور مالیات میں مغربی غلبہ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی زیر قیادت مغربی پابندیوں کے جوابی اقدام کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ روس اور ایران، شنگھائی تعاون تنظیم کے دو ایسے رکن ملک ہیں جو مغربی ملکوں کی طرف سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا براہِ راست شکار ہیں۔ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے انعقاد سے جہاں ایک طرف پاکستان کے سفارتی محاذ پر تنہا ہونے کے غلط تاثر اور پروپیگنڈہ کا خاتمہ ہوا ہے ، دوسری طرف ایس سی او کے رکن ملکوں کی طرف سے تنظیم کے قیام کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم رہنے اور عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں باہمی تعاون اور شراکت داری کو مزید آگے بڑھانے کا واضح پیغام دیا ہے۔

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز