5 اگست 2019ء کا دن بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر ایک سازشی سایہ لئے طلوع ہوا جب نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے بھارتی آئین میں ترمیم کرکے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا، جس سے کشمیریوں کا حق خودارادیت چھین لیا گیا جو انہیں تقسیم برصغیر سے پہلے دیا گیا تھا کہ وہ آزاد رہیں یا پھر اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا اعلان کریں۔ آرٹیکل 370 جو خود بھارت اور اس کے چہیتوں کے نزدیک بھارتی آئین میں ایک ”عارضی شق“سمجھی جاتی تھی، کشمیریوں کی آزادی کی واحد امید تھی کیونکہ یہ مقبوضہ کشمیر دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام معاملات میں خودمختاری دیتا تھا‘اگرچہ مقبوضہ کشمیر کی ریاست کے لوگوں کو پہلے دن سے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے جھوٹے بہانے سے بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے اور دن کی روشنی میں کشمیریوں کے حق رائے دہی کو اپنے قدموں تلے روند دیا نہ صرف یہ بلکہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد (1947-48) کو کھلم کھلا نظرانداز کرکے اقوام متحدہ کی اہمیت کو بھی مٹا دیا‘ مقبوضہ کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرنے کی ایک اور مایوس کن کوشش میں بھارت نے اب نوکریوں میں کوٹہ، ڈومیسائل جاری کرنے اور زمین خریدنے کے قوانین تبدیل کر دیئے ہیں جس کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے میں آبادیاتی تبدیلیاں لانا ہے‘کیونکہ پورے ملک سے کوئی بھی شخص ریاست میں نوکریوں کے لئے درخواست دے سکتا ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے یا پھر زمین خرید سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ مسلمانوں نے مقبوضہ کمشیر میں پہلے کی طرح سیاسی شرکت اور آزادی کھو دی ہے‘کیونکہ بھارت کی براہ راست حکمرانی کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے پاس اب اپنی حکومت نہیں ہے اور نہ ہی اپنے حقوق اور آزادی کے تحفظ کے لئے قوانین میں ترمیم یا قانون سازی کر سکتے ہیں‘ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر بھر میں بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا اور پوری وادی میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ پورے کشمیر میں ہڑتالیں بھیکی گئیں لیکن بھارتی فورسز نے مظاہرین کو دبانے کے لئے طاقت کا حد سے زیادہ استعمال کیا جس میں مار پیٹ، بدسلوکی، پیلٹ گنز، آنسو گیس اور گولہ بارود کا استعمال کیاگیا۔ نقل و حرکت، اکٹھا ہونے اور اجتماعات پر پابندیاں عائد کی گئیں اور اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کے لئے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز سمیت مواصلاتی ذرائع کو بند کر دیا گیا۔ ہزاروں افراد بشمول سیاستدان، آزادی کے کارکن اور شہریوں کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور انہیں انصاف تک رسائی، شفاف مقدمات اور قانونی نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔ سینکڑوں افراد کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے جبکہ خواتین کو جنسی ہراسانی کے ساتھ دھمکیوں اور بچوں کو نفسیاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری وادی میں ایک بحران پیدا ہوا کیونکہ بھارت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے خوراک، ادویات اور ضروری اشیاء کی فراہمی ممکن نہ تھی۔ اس کے علاوہ میڈیا اور صحافت پر سنسرشپ لگا دی گئی تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے جرائم کی رپورٹنگ نہ ہو سکے اور دنیا ان سے بے خبر رہے۔مسلمان اور عالمی رہنما بشمول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان اور امریکی قانون ساز، اسلامی تعاون تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ کچھ نے بھارتی فورسز کے جرائم کی تحقیقات اور وادی میں انسانی امداد کی اپیل کی بھی درخواست کی۔ تاہم وقت آگیا ہے کہ محض زبانی جمع خرچ کے بجائے خصوصی طور پر اقوام متحدہ اور عمومی طور پر مسلمان اور دیگر عالمی رہنما کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔ کیونکہ اقوام متحدہ سے متعلق بنیادی سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آیا اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے جائز اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں۔ اس کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر اس لئے عائد ہوتی ہے کیونکہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں واضح طور پر دونوں ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی افواج کو کشمیر سے واپس بلائیں اور مسئلہ کو بیلٹ پیپر کے ذریعے حل کریں جس سے کشمیر کے لوگوں کو فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا آزاد رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے قرارداد پر عمل کرتے ہوئے اپنی افواج کو واپس بلا لیا جبکہ بھارت نے اپنی سکیورٹی فورسز کے انخلا کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کی زحمت تک نہ کی۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نہ صرف وادی میں موجود رہیں بلکہ نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی تبدیل کر دیا جس سے کشمیر کے لوگوں کو رہی سہی خودمختاری سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی رہنماؤں کو واقعی اس مسئلہ کے حل کے لئے مداخلت کرنی چاہیے ورنہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور وحشیانہ پن پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے کیونکہ ایک قوم اپنی خودمختاری کے لئے کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتی اور ایسا کشمیری بھی کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام کی غیر متزلزل کوششیں اور قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی سطح اور ہر فورم پر کشمیریوں کی حمایت کی ہے جبکہ آئندہ بھی کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہر مشکل وقت میں شانہ بشانہ کھڑا رہے گا کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔