امریکا میں پاکستانی سفیر کیا کر رہے ہیں؟

کورونا سے پہلے میں امریکا آیا تو اس وقت پاکستان کے سفیر اسد مجید تھے، بہت پڑھے لکھے، بلا کے ذہین اور سفارتی رموز کو خوب جاننے والے، سائفرکی ساری کہانیوں میں اسد مجید کا تذکرہ شامل رہا، ڈاکٹر اسد مجید کے ساتھ گفتگو میں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف عالمی سیاست پر نظر رکھتے ہیں بلکہ انہیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہےکہ کس ملک کی کیا حیثیت ہے، 2022ء کے ابتدائی مہینوں میں ڈاکٹر اسد مجید کی شہرت کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب سائفرکا قصہ میڈیا کی زینت بنا، بعد میں ڈاکٹر اسد مجید سیکریٹری خارجہ بھی رہے، اب وہ ترکی، ایران اور پاکستان کی مشترکہ تعاون کے سیکرٹری ہیں۔ امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر رضوان سعید شیخ بھی ڈاکٹر اسد مجید کی طرح راوین ہیں، رضوان سعید شیخ میٹھے لہجے کے متحرک سفیر ہیں، لہجے میں مٹھاس شاید سرائیکی کی شیرینی ہے، شیخ صاحب پکے بہاولپوری ہیں، ان کا دل آج بھی بہاولپور کیلئے مچلتا ہے، کشادہ سڑکوں کے حامل شہر بہاولپور سے تعلق رکھنے والے رضوان سعید شیخ کا دل بھی کشادہ ہے، وہ پہلے بھی امریکا میں ڈپٹی ایمبیسڈر رہ چکے ہیں، اس مرتبہ امریکا آنے سے پہلے وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے، جب یہ سوچا گیا کہ اب امریکا میں کس کو سفیر لگایا جائے تو سفارتی مہارت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ رضوان سعید شیخ کو امریکا میں سفیر لگایا جائے، رضوان سعید شیخ آج کل معاشی سفارت کاری میں لگے ہوئے ہیں، مجھے یہ پاکستان کے دوسرے سفیر ایسے ملے ہیں جو معاشی سفارت کاری بھی کر رہے ہوں، اس سے پہلے میں نے بر اعظم افریقہ میں ایک پاکستانی سفیر احمد علی سروہی کو دیکھا تھا کہ وہ پاکستان کا کاروبار بڑھانے کی کوشش کرتے تھے اور ان کی وہ کوشش کامیاب بھی رہی، اب یہ کوششیں کرتے ہوئے رضوان سعید شیخ کو امریکا میں دیکھ رہا ہوں، میری ان سے پہلی ملاقات ڈیلس میں ہوئی، جہاں اپنے ملتانی حفیظ خان نے ناشتے پر پاکستانی سفیر کو مدعو کر رکھا تھا، حفیظ خان نے ڈیلس کے انتہائی کامیاب کاروباری افراد کو بھی مدعو کر رکھا تھا، میں فرینڈز آف کشمیر کی چیئر پرسن غزالہ حبیب خان کے ساتھ حفیظ خان کی رہائش گاہ پہنچا، حفیظ خان ایک سچے پاکستانی ہیں، اس لئے انہوں نے سچے دل کے ساتھ کاروباری افراد کو مدعو کر رکھا تھا۔ ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے کے سربراہ آفتاب چوہدری بھی ساتھ تھے، یہاں پر پاکستان کے سفیر نے بڑی مدلل گفتگو کی اور انہوں نے کاروباری افراد سےکہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بزنس بڑھائیں اور سلسلے میں جہاں کہیں رکاوٹ کا سامنا ہو تو مجھے بتائیں۔ انہوں نے امریکا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تجارت کے کئی حوالے کاروباری افراد کے سامنے رکھے، خیر! ان کی گفتگو کافی دلچسپ تھی، کچھ دیر بعد محفل برخاست ہوئی، سب مہمان رخصت ہو گئے تو نسیم خان نے مجھے کہا کہ حفیظ بھائی نے آپ کو رکنے کا کہا ہے، بس کچھ دیر گپ شپ ہوئی اور پھر میں ہیوسٹن کی طرف روانہ ہو گیا کیونکہ اسی روز چوہدری تنویر احمد نے ہیوسٹن میں پاکستانی کمیونٹی کے چنیدہ افراد کو مدعو کر رکھا تھا، یہاں پر ڈاکٹر آصف قدیر سمیت کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی، یہاں پر بھی رضوان سعید شیخ نے اپنا وہی موقف سامنے رکھا، جب الوداعی کلمات ادا ہو رہے تھے تو پاکستانی سفیر مجھے کہنے لگے’’آپ واشنگٹن کب آ رہے ہیں، جب بھی آئیں مجھ سے ضرور ملیں‘‘۔ پھر ان سے واشنگٹن میں بھی ملاقات ہوئی، پاکستانی سفارت خانے کے پریس سیکرٹری میلسی کے سرفراز حسین بھی گفتگو میں شامل رہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ رضوان سعید شیخ پاکستان کیلئے امریکا کی ہر ریاست میں جا رہے ہیں، ان کی کوششوں سے سان فرانسسکو میں پانچ بڑے منصوبوں کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے، ان پانچوں منصوبوں پر سعودی عرب پیسے لگائے گا، افرادی قوت پاکستان کی ہو گی جبکہ ٹیکنالوجی امریکا کی ہوگی، اس طرح پاکستان آئی ٹی کے میدان میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر شامل ہو گا۔ اسی طرح ایک اور اطلاع ہے، یہ اطلاع ڈاکٹر آصف قدیر نے دی ہے، کچھ پاکستانی اور چند امریکی سینیٹرز کا ایک وفد 20 نومبر کو پاکستان جا رہا ہے، اس وفد کے جانے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ پاکستان، قطر سے جس ریٹ سے ایل این جی لے رہا ہے، امریکا سے وہی ایل این جی آدھی سے بھی کم قیمت پر پاکستان کو ملا کرے گی۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی

جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں

اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ

بشکریہ روزنامہ آج