دانستہ اور نادانستہ غلطیاں

جتنی سیاسی غلطیاں پی ٹی آئی نے کیں اور مسلسل کرتی جا رہی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ تین میں سے کوئی ایک بات ضرور ہے۔ ایک یہ کہ پی ٹی آئی قیادت دانستہ طور پرمسلسل سیاسی غلطیاں کر رہی ہے تا کہ وہ باہر اور بانی اندر رہے۔ دوسری بات یہ کہ شاید وہ سیاست سے ہی نابلد ہے اسلئے نادانستہ سیاسی غلطیاں کرتی جارہی ہے جن کا خمیازہ بانی کے علاوہ کارکنان اور جماعت سب بھگت رہے ہیں۔ تیسری بات وکالت اور سیاست سے ناواقف ارکان ہیں اور اس تکون کی وجہ سے پارٹی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے کسی کو نہیں معلوم کہ پارٹی فیصلوں کی طاقت اور اختیار کس کے پاس ہے۔ پارٹی چیئرمین کا عہدہ برائے نام اور صرف خانہ پری کیلئے ہے۔ شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جس کا سربراہ اتنا کمزور اور بے بس ہو جتنا کہ اس جماعت کاہے۔ اگر کوئی جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان یا جمعیت علمائےاسلام (جے یو آئی) کی مثال دے کہ ان جماعتوں کے سربراہان بھی تو مجلس شوریٰ اور کمیٹی کے متفقہ فیصلوں کے مطابق چلتے ہیں تو عرض ہے کہ ایک تو وہ منظم جماعتیں ہیں دوسرا یہ ان میں آگے نکلنے اور نمبر بنانے کا تصور ہے نہ ضرورت اور نہ ہی اجازت ہے وہ طے شدہ قواعد وضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں معاملات بالکل برعکس ہیں۔ اس جماعت میں سب رہنما ہیںاور ہر ایک بڑا ہے۔ اور ہر ایک اپنی خواہش، ضرورت، آگے نکلنے اور نمبر بنانے کیلئےکوشش کرتا ہے۔ اس بے ہنگم اور غیرسیاسی صورتحال میں بانی سمیت سب پیچھے ہی ہیں۔ پارٹی میں کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا، کیا کرنا ہے اور اس کے مقاصد و نتائج کیا ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کی سیاسی غلطیوں کو دانستہ غلطیاں کہنا غلط نہیں ہوگا لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اسکے باوجود نہ کسی کو حسب خواہش فائدہ ہوا اور نہ ہی ہوگا بلکہ یہ تو جماعت کا مستقبل تاریک بنانے کےمترادف ہے بس وقتی پی ٹی آئی فائدے سے سب لطف اندوز ہورہے ہیں۔

پی ٹی آئی اپنے بانی کے اصول کے مطابق یوٹرن جماعت ہے۔ اس کو کوئی عار نہیں محسوس ہوتا کہ صبح کے فیصلے سے شام کو کس طرح منحرف ہونا ہے نہ یہ احساس ہے کہ یوٹرن کے مابعد اثرات کیا ہونگے حالانکہ یوٹرن پالیسی کے اثرات بانی خودہی بھگت رہے ہیں ۔ یوٹرن کا مقصد وہ اعتراف ہوتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ غلط تھا۔ صحیح، درست اور سوچ سمجھ کر غیر انتشاری اور انا کو ایک طرف رکھ کر فیصلوں پر یوٹرن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ سیاست میں غیرسیاسی اور جذباتی و بچگانہ بیانات اور فیصلے اپنی سیاسی ساکھ کو خود اپنے ہی ہاتھوں مجروح کرنا ہے۔ بانی کی رہائی کے لیے انتشاری اور غیر سیاسی ناکام احتجاجوں کی سیریز سے لے کر26ویں آئینی ترمیم اور چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے قائم کی گئی کمیٹی میں شمولیت تک اور اقرار کے بعد انکار کے فیصلوں نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی سیاسی فیصلوں اور سمجھ بوجھ سے عاری ہے جو شدید داخلی انتشار کا شکار ہے۔ جبکہ ہر طرف سے مایوسی نے بانی کو بھی بدظن اور ذہنی جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رکھا ہے ان کی ہدایات سیاست سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتیں۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی میں موجود سیاسی سوچ رکھنے والے بعض ارکان شاید جلد ہی کچھ اور فیصلہ کر لیں۔اندازہ کریں کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنما اب عدالتی فیصلوں یا کسی معزز جج کے چھٹی کرنے کو بھی خفیہ اداروں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ بانی کی اہلیہ کے روبکار کے معاملہ پر اگر جج صاحب کسی وجہ سے عدالت میں کرسی پر موجود نہیں تھے تو اس سے کسی ادارے کا کیا تعلق بنتا ہے۔ خفیہ اداروں کو یاجوج ماجوج کہنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ کہنے والوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ یاجوج ماجوج کون ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو تباہ و برباد کریں گے اور اس کا ایک نمونہ اور مثال اس وقت ملک میں موجود وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو ہر طرح سے ملک کو بدنام اور سیاسی و معاشی طور پر کمزور و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو اس شخصیت یعنی مولانا فضل الرحمان کو بھی نہیں بخشا جن کے گھر کا دن رات طواف کرتے اور ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ مولانا کو بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا مسودہ فائنل کیا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یا تو دانستہ ایسی باتیں کر کے بانی کی مشکلات میں اضافہ اور ان کو اندر ہی رکھنا چاہتے ہیں یا یہ بدحواسی کی علامتیں ہیں۔

نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے اور ان سطور کی اشاعت کے اگلے دن وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے۔ بعض حلقوں کی طرف سے ان کی تعیناتی کے خلاف بیانات اور احتجاج کی غیرمنطقی دھمکیاں دینے والوں کا موقف ہے کہ سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس کیوں مقرر نہیں کیا گیا گویا وہ ایک غیرجانبدار اور ایماندار جج کو چیف جسٹس مقرر کرنے پر معترض ہیں۔ سوچنا چاہئے کہ ملک کے ایک اور اہم ترین عہدے پر تعیناتی کی منظوری تو بغیر کسی کمیٹی کے صرف وزیر اعظم دیتے ہیں تو چیف جسٹس کی تعیناتی کا عمل تو بڑے مراحل سے گزار کر باہمی مشاورت سے کیا گیا ہے پھر اس پر اعتراض اور احتجاج چہ معنی دارد۔ کوئی یہ بھی تو بتائے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس تعیناتی سے ملک و قوم کا کیا نقصان اور کیا فائدہ ہے آخر اس تعیناتی سے کسی کو کیا اور کیوں تکلیف ہے۔ اور اب چائے کی پیالی میں طوفان سے کسی کو کیا حاصل ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ آج