سینیٹ نے 26 آئینی ترمیم کی 22 شقات کی منظوری دے دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی پیش کردہ یہ ترمیم بھی آئین کا حصہ بنائی ہے کہ یکم جنوری 2028 تک ملک میں سود کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے اصول سے انحراف اس ترمیم کا اہم ترین حصہ ہے۔
ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی ساخت میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اب اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ چار سینئر جج شامل کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو، دو ارکان بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ ان میں سے ایک، ایک رکن اپوزیشن لیڈر کے مشورے پر کمیشن میں شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ججوں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی اب 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں 8 قومی اسمبلی کے ارکان اور 4 سینیٹر شامل ہوں گے۔ جوڈیشل کمیشن تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کا نام آئندہ چیف جسٹس کے طور پر تجویز کرے گا۔ اگر ان تین میں سے کوئی جج اس عہدے میں دلچسپی نہ رکھتا ہو تو اگلے سینئر جج کا نام زیر غور امیدواروں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو گا۔ وہاں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد صدر کے دستخط سے یہ آئین کا حصہ بن جائے گا۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے دو بنیادی نکات اہم ہیں۔ ایک تو پاکستان تحریک انصاف نے شدت سے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ اس کے ارکان کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور انہیں آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ حتی کہ سینیٹر علی ظفر نے اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سے مطالبہ کیا کہ اگر تحریک انصاف کا کوئی رکن ترمیم کے لیے ووٹ دے تو اسے شمار نہ کیا جائے کیوں کہ پارٹی کے سب سینیٹرز نے تحریری طور سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن ووٹنگ میں ترمیم کی حمایت کرنے والے 65 ارکان میں تحریک انصاف کا کوئی رکن شامل نہیں تھا۔ ترمیم کی حمایت میں پڑنے والے ووٹوں میں پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ نون کے 19 جمعیت علمائے اسلام کے 5 بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3، اے این پی 3، بی این پی 2، آزاد سینیٹرز 4 اور ایک ووٹ ق لیگ کے سینیٹر کا تھا۔
اسی حوالے سے دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس آئینی ترمیم پر بحث کے دوران مخالفین جن میں تحریک انصاف پیش پیش تھی کا دعویٰ رہا تھا کہ یہ ترمیم قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے میں توسیع کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ عمران خان خود متعدد بار بیان دیتے رہے تھے کہ انہیں کسی صورت قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے میں توسیع منظور نہیں ہوگی۔ تاہم ایک تو منظور ہونے والی شقات میں ایسا کوئی نکتہ شامل نہیں ہے۔ دوسرے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس کو رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے لیکن چیف جسٹس سے میری تین بار آفیشل ملاقات ہوئی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہر بار کہا میں اپنی مدت پوری کر کے چلا جاؤں گا۔ مجھے توسیع میں دلچسپی نہیں ہے۔ وزیر قانون کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’جو بھی آئینی ترمیم لاگو ہوگی، وہ میرے بعد ہوگی‘ ۔
ایسے میں اپوزیشن کو غور کرنا چاہیے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے بارے میں غیر ضروری طور سے سنسنی خیزی پیدا کر کے کون سا مقصد حاصل کیا گیا۔ اور کیا ایسا سیاسی مفاد عدلیہ کے وقار اور عزت و احترام سے زیادہ اہم تھا۔ البتہ حکومت کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ اگر اسے معلوم تھا کہ چیف جسٹس 26 اکتوبر کو ریٹائر ہونے کا حتمی فیصلہ کرچکے ہیں تو اس بات کو آج تک کسی سرکاری راز کے طور پر چھپا کر کیوں رکھا گیا۔ اور یہ واضح کیوں نہیں کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بہر حال ملک کے چیف جسٹس نہیں رہیں گے اور اپنی موجودہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہوجائیں گے۔ حکومت کی طرف سے اس بارے میں شک برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس طریقے سے حکومت کی نیت اور عدلیہ کے مستقبل کے بارے میں غیر ضروری ہیجان پیدا کیا گیا، یہ قطعی طور سے غیر ضروری طریقہ تھا۔
26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں اصلاحات لانے کا عزم کیا گیا ہے۔ یقینی بنایا گیا ہے کہ حکومتی احکامات معطل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کو محدود کیا جائے۔ اسی حوالے سے سب سے بڑا فیصلہ آئینی بنچ کی تشکیل کے بارے میں ہے۔ یہ بنچ قائم ہونے کے بعد اہم آئینی معاملات اور از خود نوٹس کا اختیار نئے آئینی بنچ کو منتقل ہو جائے گا۔ بنچ کے اختیارات کو کسی دوسری عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سے سپریم کورٹ عام مقدمات پر زیادہ وقت صرف کرسکے گی اور آئینی معاملات پر ایک ایسا بنچ کام کرے گا جس میں سب صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔ حکومت اور پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ 2006 میں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو کے درمیان طے ہونے والے میثاق جمہوریت کے مطابق ہے۔ اس کا موجودہ سیاسی یا عدالتی صورت حال سے تعلق نہیں ہے۔ لیکن حکومت نے اس حوالے سے جیسی پراسراریت سے کام لیا اور آئینی ترمیم کی تفصیلات عام کرنے سے گریز کیا گیا، اس نے حکومت کے ارادوں کے بارے میں غیر ضروری پریشانی پیدا کی۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریک انصاف نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پارٹی قیادت ایک روز پہلے تک مولانا فضل الرحمان سے یہ وعدہ کر رہی تھی کہ وہ عمران خان سے منظوری لینے کے بعد ترمیم کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔ ہفتہ کو یہ ملاقات ہو بھی ہو گئی تھی اور پارٹی لیڈروں نے اتوار دو بجے تک فیصلہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت ایک بار پھر تبدیل کیا گیا۔ تاہم اتوار کو پارٹی کی ایک پریس ریلیز کے مطابق سیاسی کمیٹی نے آئینی ترمیم پر ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ پارٹی کو آئینی ترمیم کے فائنل ڈرافٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم نے اس کے لیے ووٹ نہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے اس بل کو پیش کیا گیا اور کمیٹیوں سے گزارا گیا، اور بار بار وقت تبدیل کیا گیا۔ جیسے ہمارے ایم این ایز اور سینیٹرز کو ہراساں کیا گیا اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’ہم مولانا صاحب کے کردار کو سراہتے ہیں لیکن پی ٹی آئی اس بل پر ووٹ نہیں دے سکتی‘ ۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس ترمیم کے حوالے سے سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور مولانا فضل الرحمان کے ذریعے تحریک انصاف کی رائے ماننے اور پارٹی کو ترمیم کی حمایت پر راضی کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ مولانا فضل الرحمان ہفتہ کو رات گئے تک پر امید تھے کہ پی ٹی آئی ان کی تجاویز مان لے گی۔ کیوں کہ جیسا کہ مولانا نے آج دعویٰ کیا حکومت کا مسودہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس میں سب متنازعہ پہلو نکال دیے گئے تھے۔ ’ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے‘ ۔ اس کے باوجود ایک اہم آئینی ترمیم کی حمایت سے تحریک انصاف کا گریز اصولی کی بجائے سیاسی معاملہ ہے۔ پارٹی عمران خان کی رہائی اور موجودہ حکومت کو جعلی ثابت کرنے کے لیے آئینی ترمیم کو عدلیہ دشمن اور ’غیر منتخب پارلیمنٹ‘ کا ہتھکنڈا قرار دے کر اپنے حامیوں کو رجھانے کی کوشش کرے گی۔ ملک میں اس آئینی ترمیم کے بعد بھی سیاسی تصادم کی فضا کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی حکمت عملی کا اندازہ ان بیانات سے بھی ہوتا ہے جو اس کے مختلف لیڈروں نے آئینی ترمیم کے حوالے سے جاری کیے ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی نے ترمیم کے متن سے اتفاق کا اعلان کیا لیکن کہا کہ اصولی طور سے ہم نے اس کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پارٹی نے مخالفت میں بھی ووٹ نہیں دیا۔ البتہ پارٹی کے دیگر لیڈروں نے ایکس پر جاری بیانات میں ترمیم کو مہلک اور ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے مترادف قرار دیا۔ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم ملکی عدلیہ کی خود مختاری پر خطرناک حملہ ہے۔ اب ججوں کی تقرری کا اختیار حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ جبکہ ایک دوسرے لیڈر اور ممتاز قانون دان سلمان اکرم راجہ کا دعویٰ تھا کہ ’یہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا تاریک دن ہے۔ پارلیمنٹ نے عدلیہ کا کنٹرول انتظامیہ کے حوالے کر دیا ہے‘ ۔ ان دونوں لیڈروں نے اپنے چیئرمین گوہر علی کے بیان پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ پارٹی کو ترمیم کے متن پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس حکمت عملی سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی مستقبل قریب میں 26 ویں آئینی ترمیم کو سیاسی عذر کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کو مشتعل کرنے اور عدلیہ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرے گی۔
اس ترمیم کے حوالے سے البتہ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اس ترمیم کو عدلیہ میں جائز اور مثبت اصلاحات کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی۔ مسلسل یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے بارے میں چونکہ حکومتی موقف کے برعکس فیصلہ دیا تھا، اس لیے حکومت سپریم کورٹ کو ’بے اختیار‘ کرنا چاہتی ہے تاکہ مستقبل میں کوئی عدالت حکومتی اختیار کو چیلنج نہ کرے۔ یہ طرز عمل یقیناً عدلیہ کی خود مختاری کے اصول اور حکومت کی نیت نیتی کے حوالے سے سنگین سوال کی صورت میں موجود رہے گا۔ خاص طور سے جیسے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے لیے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ تبدیل کیا گیا ہے، اس سے یہ تاثر قوی ہو گا کہ حکومت سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جیسے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس آئینی ترمیم کا اطلاق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت پر نہیں ہو گا، اسی طرح یہ بھی واضح کیا جائے کہ سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے۔
ملکی عدلیہ کی اصلاح ایک جائز ضرورت ہے لیکن حکومت نے عجلت اور بدحواسی میں مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملانے کے لیے ان کی ناجائز اور ناقابل عمل تجاویز منظور کیں۔ ان میں سب سے اہم آئندہ تین سال میں ملک سے سودی نظام ختم کرنے کا اصول آئین میں شامل کرنے کا اقدام ہے۔ حکومت کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کو بھی علم ہو گا کہ اس فیصلہ پر کبھی عمل نہیں ہو سکے گا۔ لیکن مولانا اپنے ووٹروں میں لابنگ کے لیے اور حکومت مولانا کو راضی کرنے کے لیے یہ عاقبت نا اندیشانہ شق آئین کا حصہ بنانے پر راضی ہوئی۔ اب کسی بھی پارلیمنٹ کے لیے اس سے نجات حاصل کرنا بھی توہین مذہب کے ناجائز اور غیر منصفانہ قوانین کو تبدیل کرنے کی طرح ناممکن ہو گا۔