خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان وکرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
بلاشبہ اس فانی دنیا میں صاحب بصیرت ہی حیات جاوداں پاتے ہیں۔ ڈاکٹر کمالی عالم فلسفہ کے فاضل اور جید مستند عالم تھے۔ آپ فلسفہ اور علوم اسلامیہ کی روایت کا ایک معتبر حوالہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے علمی اور فلسفیانہ حلقوں میں وطن عزیز پاکستان کی شناخت تھے۔ مقالات عبد الحمید کمالی ہر دور میں حقیقی علمی کام کی حیثیت سے ہمیشہ ایک حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔
فکر اقبال پر آپ کی تحریریں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ کی تحریروں میں مشرق و مغرب کے فلسفے اور علوم اسلامیہ کا مطالعہ اور تفکر پورے طور پر نمایاں ہے۔ آپ کی تحریریں صرف فکری اور فلسفیانہ موضوعات سے متعلق ہی نہیں تھیں بلکہ آپ نے مسلم معاشرے کے زندہ مسائل کو بھی اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ معاشرتی اور سیاسی مسائل پر بھی آپ نے قلم اٹھایا۔ ڈاکٹر کمالی کے تفکر میں جامعیت، وسیع العلمی، منطقی استدلال پڑھ کر قاری ان کا معترف ہوجاتا، آپ نے فکر اقبال پر اردو اور انگریزی میں متعدد اہم مقالات لکھے۔ کمالی صاحب جیسی علمی سخاوت بہت ہی کم لوگوں میں نظر آتی ہے، آپ اپنے شاگردوں کی آخری لمحے تک رہ نمائی فرماتے رہے۔
علامہ اقبال ؒکے حوالے سے ان کا کیا گیا کام ایران کے بھی علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا۔ پروفیسر عبدالحمید کمالی نے اسلامی وجودیات کے خدوخال کو بڑے کامیاب انداز میں پیش کیاہے۔ کمالی صاحب ان معدودے چند میں سے تھے جو فلسفے کی تینوں بڑی روایتوں، مغربی، اسلامی اور ہندی سے بہت گہری واقفیت رکھتے۔ ان کی اضافی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ سماجی علوم، اقتصادیات، عمرانیات اور بشریات کی راہ سے فلسفے کی طرف آئے تھے۔
آپ نے اپنی علمی روایات کو طلبہ تک پہنچایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے عمرانی تصورات کو بھی آگے بڑھایا۔ عظیم اساتذہ سے علم حاصل کرکے کمالی صاحب علمی دنیا کی عظیم شخصیت بنے، ان کا نصب العین حصول علم تھا۔ آپ ان چند اہل علم میں شامل ہیں جو اگر کسی موضوع پر بات کرتے تو اس کے ہر ہر پہلو کو مدنظر رکھتے۔ ان خیالات کا اظہار اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام سابق ڈائریکٹر اقبال اکادمی عبدالحمید کمالی کی یاد میں منعقد خصوصی سیمینار میں کیا گیا۔ مقررین میں ابصار احمد (صدر سیمینار)، ڈاکٹر ساجد علی، ڈاکٹر عبدالحفیظ، ڈاکٹر شفیق عجمی، ڈاکٹر علی رضا طاہر، ڈاکٹر مظفر عباس شامل تھے، جبکہ راقم الحروف نے آن لائن شرکت کی اور اپنے درد مندانہ خیالات کا جو اظہارکیا، اس کے چند اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’ والد محترم کی چھاؤں سے دور ہو کر زندہ تو ہوں مگر بہت بے قرار اور اداس،آپ کی یادیں اور محبت ہماری زندگی کا انمول سرمایہ حیات ہیں۔ آپ کی نصیحتیں زندگی کے لیے مشعل راہ اور آپ کی دعائیں دکھوں کی دھوپ میں سایہ فگن ہیں۔ موت کی بے رحم نیند نے آپ کو ہم سے جدا توکردیا لیکن آپ کی شفقت اور محبت ہمارے دلوں میں ابد تک زندہ و جاوداں رہے گی۔ آپ سے بچھڑتے وقت ایسا محسوس ہوا کہ وقت کی نبض رک گئی ہو، کاروان زندگی تھم چکا ہو اور دل کی دھڑکنیں بند ہوگئی ہوں، مگر لمحوں کے سکے وقت کی تھال پر یوں ہی چھن چھن کر گرتے رہتے ہیں اور لمحوں کو دنوں اور دنوں کو برسوں میں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن کچھ زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں اور وقت کی گردان بھی ان کو دھندلا نہیں سکتی۔
آپ کی عظیم شخصیت لاتعداد خوبیوں کا مرقع تھی، وہ لب جو ہمہ وقت ہماری سلامتی، کامیابی اور خوشیوں کے لیے دعا گو رہتے وہ آغوش جو ہر لمحہ ہمیں زمانے کے سرد و گرم سے بچائے رکھتی وہ دل جو ہماری ذرا سی تکلیف سے تڑپ اٹھتا میرے ماتھے پر پڑنے والی ایک شکن آپ کو کھانا کھانے سے روکے رکھتی جب تک وہ اس سے میرے چہرے کی مسکراہٹ میں نہ بدل دیتے وہ وجود جو ہمارے لیے محبت کا سمندر تھا۔ موت کی بے رحم آغوش نے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندر سمیٹ لیا ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ آج بھی کہیں بہت دور وہ ہمارے لیے اور ہماری کامیابیوں کے لیے دعاگو ہوں گئے۔ دنوں کے اضافے، مہینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے آپ کی محبت، آپ کی یاد اور آپ کو کھونے کے دکھ میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج بھی جب آپ کی علالت کے وہ اذیت ناک لمحات یاد آتے ہیں تو ہم وہی دکھ محسوس کرتے ہیں جواس وقت کررہے تھے۔
تھام کے انگلی میری مجھ کو چلنا سکھایا آپ نے
دنیا کی بھیڑ میں اکیلے جینا سکھایا آپ نے
مختصر علالت کے باعث بروز ہفتہ 2مئی 2015کو وقت تہجد آپ اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے اور ایک شجر سایہ دار جس سے دنیا محروم ہوگئی۔ آپ بہت اصول پرست تھے اور اصولوں پر آپ نے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور پھر آپ کا میدان تو نہایت فنی اور حد سے زیادہ سنگلاخ یوں بھی یہ کوئی عام شہرت کا میدان نہیں، مگر سارے کاموں کی کونپلیں اسی سے پھوٹتی ہیں، ہر کام کا ابتداء سے انتہاء تک کوئی نہ کوئی فکر و فلسفہ ہوتا ہے شاید کوئی حکومت کوئی ادارہ جو ان کی فکری خدمات کا اعتراف کرسکے؟ ایسی حکومتیں شاید مستقبل میں یہاں آسکیں۔
آپ نے کبھی کسی صلے یا ستائش کی تمنا رکھی نہ توقع طالب علم جب آپ کے کاموں سے استفادہ حاصل کرتے، آپ سے رہنمائی حاصل کرتے تو اسی کو آپ اپنے لیے سب سے بڑا ایوارڈ تصور کرتے۔ آپ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ طویل مقالے کو جس کا عنوان ’’ اسلامک بیک گراونڈ آف اقبالزتھاٹ ‘‘ کو اہل علم کی تحسین کے پرزور اصرار پر بزم اقبال نے ’’علامہ محمد اقبالؒ، اے فلاسفر پویٹ آف اسلام‘‘ کے نام سے 2002 میں کتابی شکل میں شائع کیا۔
کتاب کے آغاز میں سابق ناظم بزم اقبال پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے آپ کو ’’مشرق کے فلسفی‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ آپ کے مزاج میں خاکساری اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کے شب و روز انہماک کے ساتھ کچھ نہ کچھ علمی کام کرنے میں گزرتے ان کی صحبت میں صرف کام کی باتیں ہی ہوسکتی تھیں اور وہ کام کی باتیں کتابوں میں نہیں مل سکتیں۔ آخر میں، میں ناظم اکادمی ڈاکٹر عبد الروف رفیقی کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔
اس خصوصی سیمینار کے انعقاد پر ساتھ میں ان کے معاونین ڈاکٹر طاہر تنولی، ادریس، فہیم، زید حسین و دیگر بھی اس شاندار تقریب کے منعقد کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اچھے لوگوں کو یاد کرنا اور ان کی یاد کو قائم رکھنا احسان مندی اور شکر گزاری کی خوبصورت ترین شکل ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی روایت ہے جس سے جاری رہنا چاہیے۔ تقریب کے اختتام پر ناظم اکادمی ڈاکٹر رفیقی نے تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبد الحمید کمالی صاحب بصیرت اور جید عالم تھے، انہوں نے علمی روایات کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔