صحافت کے شعبے میں ذرا قدم جما لئے تو افغانستان میں ”جہاد“ شروع ہوگیا۔ اس کے بارے میں میرا دل شکوک و شبہات سے بھرارہا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ ”جہاد“ کے سرپرست جنرل ضیا الحق تھے جنہوں نے جولائی 1977ء میں مارشل لاءلگانے کے بعد صحافیوں کی زباں بندی کیلئے ایسے منصوبے بنائے جن میں ہمارے چند ساتھیوں کو برسرعام کوڑے مارکر ”عبرت کا نشان“ بنانے کا عمل بھی شامل تھا۔ علاوہ ازیں 1980ء کی دہائی کے آغاز تک میں ذہنی اعتبار سے ”سرخا“ رہا۔ متعصب ”سرخے“ کو افغان ”جہاد“ سے چڑ اس وجہ سے بھی تھی کہ اس کے حامیوں میں مذہب کے نام پر قائم ہوئی سیاسی جماعتیں صف اوّل میں نظر آتیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ”افغانستان میں آزادی اور انسانی حقوق“ کی جنگ لڑنے والی حکومت کے دوران اکتوبر1979ء میں تمام -جی ہاں تمام- سیاسی جماعتیں ”کالعدم“ ٹھہرا دی گئی تھیں۔ ان جماعتوں کے رہ نما اسلام آباد آتے تو اپنے کسی دوست کے ہاں مفرور ملزموں کی طرح پناہ گزیں ہوئے چند صحافیوں سے ملاقات کی راہ نکالتے۔ ہم شاذہی ان کا نام لے کر کوئی ”خبر“ رپورٹ کر پاتے۔
ملکی سیاستدانوں کے برعکس ”افغان جہاد“ کے گل بدین حکمت یار جیسے رہ نما ہر مہینے تقریباََ ایک بار اسلام آباد کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں پرہجوم پریس کانفرنسوں سے طولانی خطاب فرماتے۔ کم از کم ایک درجن پر مشتمل محافظوں کا گروہ ہاتھوں میں کلاشنکوف حالتِ جنگ کی صورت اٹھائے ان کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا ہوتا۔ ان کے خوف سے مشکل سوال کرنے کی جرات ہی نہ ہوتی۔ دہشت کے اس عالم میں بھی نوجوانی کے خمار میں یہ احمق کبھی کبھار سخت سوال اٹھا دیتا۔ عموماً میرے سوال ”مجاہدین“ کی جانب سے ان سکولوں پر یلغار کے بارے میں ہوتے جو افغان بچیوں کی تعلیم کے لئے مختص تھے۔ مجھے جواب ملتا کہ یہ حملے افغان بچوں کے اذہان کو ”دہریت اور خلاف اسلام تعلیمات“ سے محفوظ رکھنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے جھکی انداز میں یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہو جاتا کہ اگر افغان بچوں کے اذہان کو ”خلاف اسلام“ خیالات سے محفوظ رکھنا مقصود ہے تو ایسے حملے ان سکولوں یا کالجوں پر کیوں نہیں ہورہے جہاں افغان لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کئی صحافی نہایت خلوص سے مجھے متنبہ کرتے کہ میں ایسے ”تخریبی“ سوالات سے گریز کی راہ اختیار کروں۔ انہیں میری سلامتی کی فکر لاحق ہو جاتی۔
بہرحال ” افغان جہاد“ کے بارے میں رپورٹنگ اور تبصرہ آرائی کے بغیر 1980ء کی دہائی میں آپ خود کو ”اہم“ صحافی نہیں منوا سکتے تھے۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی دل و جان سے مذکورہ جہاد کے پشت پناہ تھے۔ میں بنیادی طور پر انگریزی اخبار کے لئے رپورٹنگ اور کالم نگاری پر توجہ دیتا تھا۔ افغانستان کے بارے میں نئی معلومات پر مبنی کوئی ”تجزیہ“ نما شے لکھتا تو امریکی اور یورپی سفارت خانوں سے ملاقاتوں کی درخواستیں آنا شروع ہو جاتیں اور ”ٹہکا شہکا“ کسے برا لگتا ہے۔
افغانستان پر توجہ دینے کی وجہ سے 1980ء کی دہائی میں مجھے ان دنوں کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبرپختونخواہ میں کئی بار 3 سے 4 روز قیام کے لئے جانا پڑتا۔ ان دوروں کے طفیل کئی پشتون سیاستدانوں اور صحافیوں کے ساتھ قریبی عزیزوں جیسے تعلقات قائم ہو گئے۔ پشتون دوستوں سے جو گرم جوش محبت نصیب ہوتی ہے ہمیشہ اس کے بارے میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں۔
حسب عادت تمہید لمبی باندھ دی ہے۔اس کی بابت مگر معذرت طلب نہیں کروں گا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ٹیلی فون کے ذریعے اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔ فوری وجہ اس رابطے کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کی پنجاب کے مختلف شہروں اور بالآخر اسلام آباد پر یلغار تھی۔ اس کے بارے میں تازہ ترین اور اندر کی بات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے خوشی ہے کہ محنت رائیگاں نہیں گئی۔ صحافیانہ تجسس سے بحال کئے راستوں نے ”اندر“ کی بے شمار چوندی چوندی خبروں سے آگاہ رکھا۔ یہ الگ بات ہے کہ رزق کمانے کے لئے نوکری بچانے کو مجبور صحافی ان میں سے فقط چند ہی کا ذکر کر پایا۔
چسکہ فروشی تو کافی حد تک کامیاب رہی۔ خیبرپختونخواہ کے مختلف الخیال مگر دور اندیش افراد سے مسلسل گفتگو کے بعد مگر میں کئی حوالوں سے نہایت پریشان بھی ہوگیا ہوں۔ علی امین گنڈاپور جس انداز میں اپنے ہاں کی پولیس کو اسلام آباد پر یلغار کے لئے تحریک انصاف کے لشکر کی صورت استعمال کررہے ہیں اس کے بارے میں اپنی فکرمندی کا اظہار جمعرات کی صبح چھپے کالم میں کردیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ کالم لکھ کر دفتر بھجوادیا تو خبر آئی کہ بدھ کے روز علی امین گنڈا پور نے صوبائی کابینہ کا ”ہنگامی“ دِکھتا اجلاس طلب کیا۔ وہاں پر فیصلہ ہوا کہ صوبائی پولیس کے گریڈ 18 اور 19 کے افسروں کے تبادلے فقط وزیر اعلیٰ کی منشائ کے مطابق ہوں گے۔ اس سے قبل 2017ء میں پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے تو خیبرپختونخواہ پولیس کو دیگر صوبوں کے لئے ”مثالی“ بنانے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اس صوبے میں تعینات آئی جی کو یہ اختیار سونپ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ترجیح اور منشا کے مطابق پولیس افسران کی تعیناتی یا تبادلے کرے۔ عمران خان تواتر سے مذکورہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے دیگر صوبوں کو طعنے دیتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 2018ء کے بعد وہ بزدار حکومت سے پنجاب پولیس کو ”انقلابی“ نہ بنوا سکے۔
پولیس افسران کی تعیناتی اور تبادلوں سے کہیں زیادہ فکرمندمیں اس وجہ سے بھی ہو رہا ہوں کیونکہ خیبرپختونخواہ کے جس باسی سے بھی بات ہوئی (خواہ اس کا تعلق اِس جماعت سے ہویاآس جماعت سے) سنجیدگی سے یہ محسوس کرتا سنائی دیتا کہ پاکستان کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے (اور تمام کا لفظ میں خط کشیدہ کے ساتھ لکھنا چاہوں گا)انہیں تحریک انصاف کے ”سپرد“ کردیا ہے۔ کئی افراد نے جلے دل کے ساتھ مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ حالیہ چند مہینوں میں مسلم لیگ (نون) یا پیپلز پارٹی کے کونسے اہم رہ نما نے خیبرپختونخواہ کا دورہ کیا۔ مذکورہ جماعتوں کے رہ نما اگر وہاں جلسوں سے خطاب کے قابل نہیں رہے تو کم از کم اپنی جماعتوں سے وابستہ لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ”تنظیمی دوروں“ کے نام پر خیبرپختونخواہ کا چکر لگایا جاسکتا ہے۔ جس تناظر میں یہ شکوہ ہوا اس میں پیپلز پارٹی کا خصوصا ذکر ہوا۔ خیبر پختونخواہ کے گورنر فیصل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ ہیں۔ وہاں کے گورنر ہاﺅس کو مرکز بناتے ہوئے پیپلز پارٹی کو خیبر پختونخواہ میں ”بحال“ کرنے کی خواہش کا کئی دوستوں نے اظہار کیا۔ مختلف الخیال لوگوں سے گفتگو کے بعد یہ تاثر ابھرا کہ خیبر پختونخواہ کے باسیوں کی اکثریت یہ محسوس کر رہی ہے کہ فقط سیاسی جماعتیں ہی نہیں ریاست کے طاقتور اداروں نے بھی انہیں ”بھلا“ دیا ہے۔ وہ خود کو تحریک انصاف یا انتہا پسندمذہبی گروہوں کے ہاتھوں پرغمال ہوا محسوس کر رہے ہیں۔