32

اتحاد کی سیاست

پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پنجاب کی سطح تک پاور شیئرنگ فارمولے پر کوئی بات نہیں ہو رہی ‘ وائس چانسلر تقرری پر گورنر پنجاب اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلاف میڈیا تک نہیں آنا چاہیے تھے۔ گورنر کا ایک آئینی رول ہے جو آپس میں مل بیٹھ کر طے ہو جانا چاہیے تھا ۔

 

پنجاب حکومت کو چھ ماہ سے زائد ہو چکے ہیںاور یہاں 76 فیصد وہی بیورو کریسی کام کر رہی ہے جو نگران حکومت میں تھی جسے تبدیل نہیں کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ جو بھی حکومت برسراقتدار آتی ہے ۔وہ سیاسی لوگوں کے بجائے بیورو کریسی کو ترجیح دیتی ہے بلکہ اپنے ارکان اسمبلی کوبھی نظر اندازکر دیتی ہے۔بھٹو کے دور سے لے کر میاں نواز شریف کے دور تک جو بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنااس کے بارے میں ایسی ہی شکایات آتی رہتی ہیں کہ وہ بیوروکریسی کے بل بوتے پر کام کر رہا ہے۔

میاں نواز شریف نے محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی پھر 1988 میں جونیجو صاحب کی برطرفی کے بعد انھوں نے جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا اور مسلم لیگ نواز بنا لی تھی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے نواز شریف 1990 میں وزیر اعظم بنے تھے مگر پھر جماعت اسلامی الگ ہوگئی تھی جس کے بعد (ن) لیگ کا دو بار ایم کیو ایم سے اتحاد ہوا تھا جو باہمی شکایات پیدا ہونے پر زیادہ نہیں چل سکا تھا اور ایم کیو ایم دونوں بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے الگ ہوئی تھی۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

 

 

نو سال بعد 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) پہلی بار شامل ہوئی تھی مگر چند ماہ بعد ججز بحالی کے مسئلے پر (ن) لیگ پی پی حکومت سے وفاقی سطح پر الگ ہوگئی تھی اور پنجاب میں (ن) لیگی حکومت برقرار تھی جسے صدر آصف علی زرداری نے گورنر راج نافذ کرکے ہٹایا تھا جو بعد میں عدالت سے بحال ہوگئی تھی۔

آصف زرداری نے 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان حکومت ختم بھی کرائی تھی حالانکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تھا جو دونوں پارٹیوں کی مجبوری تھی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے وفاقی اور (ن) لیگ کی پنجاب حکومتوں کی مدت پوری ہوئی تھی جو پہلی بار ہوا تھا۔ 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنوں میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ساتھ دیا تھا اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے قریب آئی تھیں۔

 

2018 میں وزیر اعظم بن کر بانی پی ٹی آئی نے بھی جنرل پرویز سے بھی بڑھ کر (ن) لیگ اور پی پی رہنماؤں کے خلاف سخت ترین انتقامی کارروائیاں کی تھیں۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت گرفتارکرائی تھی جس پر دونوں پارٹیاں پھر ایک دوسرے کے قریب آئی تھیں اور اپریل 2022 میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹایا تھا اور حکومت بنائی تھی جو سولہ ماہ کامیابی سے چلی جس کے وزیر اعظم شہباز شریف تھے جس میں ایم کیو ایم اور جے یو آئی بھی شامل تھیں اور پہلی بار (ن) لیگ اور پی پی حکومت میں مل کر چلے تھے۔

فروری 2024 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر وفاقی حکومت بنائی جس میں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم اور آصف زرداری دوسری بار صدر مملکت تو بنے مگر پی پی وفاقی حکومت میں شامل نہیں البتہ پنجاب کی سطح پر (ن) لیگ کی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہم آہنگی قائم ہے جہاں گورنر پیپلز پارٹی کا مقرر ہوا مگر پنجاب حکومت اور گورنر پنجاب کے درمیان تھوڑی بہت نوک جھونک ہوتی رہتی تھی  جیسے پنجاب میں وائس چانسلروں کی تقرری پر اختلافات سامنے آئے تھے جنھیں حل کرنے کی دونوں طرف سے سنجیدگی کوشش کی گئی اگرذرا پہلے ایسا ہو جاتا تو وائس چانسلروں کی تقرری پر تنازعہ ہی پیدا نہ ہوتا۔

 

سندھ میں وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کے گورنرکو تو برقرار رکھا ہے، ان کا رویہ بھی گورنر پنجاب جیسا نہیں ہے اور نہ اب تک کسی مسئلے پر سندھ حکومت اورگورنر سندھ کے درمیان کوئی اختلاف سامنے آیا ہے مگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال کا بیان سامنے آچکا ہے کہ وفاقی حکومت چوتھی بڑی پارٹی ایم کیو ایم کو نظرانداز کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ میں 50 سالوں سے رائج کوٹہ سسٹم ختم نہ کیے جانے پر ایم کیو ایم کے شدید تحفظات ہیں جو بھٹو دور میں دس سال کے لیے نافذ ہوا تھا مگر پچاس سال بعد بھی برقرار ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن کے بعد ہم نے مسلم لیگ (ن) سے کوئی سودے بازی نہیں کی تھی بلکہ لاہور جا کر سب سے پہلے (ن) لیگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا مگر (ن) لیگ کا رویہ ہمارے ساتھ منصفانہ نہیں ہے نہ ہمارے مسائل حل ہو رہے ہیں اس سے بہتر ہے کہ ہم حکومت ہی میں نہ رہیں۔

 

مجوزہ آئینی ترامیم جس طرح حکومت نے گزشتہ ماہ جلد بازی اور رات گئے منظور کرانے کی کوشش کی تھی، اس پر بھی حکومتی اتحادیوں کو (ن) لیگ سے شکایات ہیں کہ (ن) لیگی حکومت اتحادیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیتی نہ مشاورت کرتی ہے۔

ماضی میں بھی (ن) لیگ سے اس کے اتحادیوں کو ایسی ہی شکایات رہی ہیں اور اب بھی یہی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ماضی سے (ن) لیگ کے اہم اتحادی مولانا فضل الرحمن بھی (ن) لیگ سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور انھیں (ن) لیگی قیادت سے بھی بے پناہ شکایات ہیں مگر مسلم لیگ (ن) اپنے اتحادیوں کو اس لیے اعتماد میں نہیں لے رہی کہ اسے پتا ہے کہ اتحادی اس کے ساتھ کیوں چلنے پر مجبور ہیں۔بہرحال اس سب کے باوجود اتحادی حکومت کامیابی سے چل رہی ہے ‘ اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ میڈیا میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اختلافات کی جو خبریں آتی ہیں وہ بھی ایک روٹین کا معاملہ ہے۔

 

بشکریہ ایکسپرس