44

ناکامی کا بوجھ

دو عظیم پہاڑوں کے درمیان بسے ایک چھوٹے سے‘ موسم سے شکست خوردہ شہر میں‘ راشد نامی ایک شخص رہتا تھا۔ راشد ایک ایسا شخص تھا جسے آپ نے شاید ہی کسی ہجوم میں دیکھا ہو۔ یعنی ظاہری شکل میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی‘ جسے کوئی نوٹ کرے۔ پتلے بھورے بالوں کے ساتھ پریشانی کی لکیروں سے بھرا ہوا عام سا چہرہ تھا اور آنکھیں جو مستقل طور پر خاموشی کے ساتھ ابر آلود نظر آتی تھیں۔ اس کے کپڑے ہمیشہ صاف ہوتے تھے لیکن کئی برسوں سے مسلسل پہنے جاتے تھے اور بہت زیادہ دھونے سے دھند لائے ہوئے تھے۔ وہ ہلکا سا جھک کر چلتا تھا‘ جیسے دنیا کے وزن نے رفتہ رفتہ اس کی پیٹھ کو جھکا دیا ہو۔
راشد ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا تھا جو مشکلات کے لیے بالکل اجنبی نہیں تھا۔ اس کے والد کوئلے کی کان سے لے کر کھیتوں اور بھٹیوں میں کام کرنے والے محنت کش تھے‘ ایک ایسا کام جس نے ان کے جسم کو توڑ دیا تھا‘ اس سے بہت پہلے کہ راشد یہ سمجھ سکے کہ اس کے والد اسے دوسرے باپوں کی طرح ہوا میں کیوں نہیں اچھال سکتے تھے۔ اس کی ماں محنت کش تھی‘ جس کے ہاتھ برسوں سے لوگوں کے گھروں کی صفائی کر کر کے زخمی اور سرخ ہو چکے تھے۔ اس نے ابتدائی طور پر جان لیا تھا کہ زندگی اسے بھی مسلسل پیسنے والی تھی‘ اور اس نے اسے ایک سادہ سچائی کے طور پر سمجھا‘ اپنے دل و دماغ کو قائل کیا اور اسے قبول کر لیا۔
کامیابی‘ان جیسے لوگوں کے لیے قابلیت یا خواہش کا معاملہ نہیں بلکہ سراسر غیر متزلزل برداشت کا معاملہ تھا۔ چھوٹی عمر سے راشد نے سخت محنت کی۔ سکول میں وہ سب سے ذہین نہیں تھا لیکن محنتی تھا۔ وہ رات گئے تک جاگتا رہتا‘ لالٹین کی مدھم روشنی میں درسی کتابوں میں جھانکتا رہتا۔ سخت سردی یا شدید گرمی میں طویل مسافت کے باوجود اس نے سکول کا ایک دن بھی نہیں چھوڑا‘ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنی ہی کوشش کی‘ اس کے درجات معمولی رہے۔ اس کے اساتذہ نے اس کی کوششوں کو تسلیم کیا لیکن اکثر نے کہا کہ اس کے پاس وہ چنگاری نہیں جو دوسروں کے پاس تھی۔ سکول کے بعدراشد نے کوئی بھی ملازمت اختیار کر لی جو اسے مل سکتی تھی۔ اس نے اسی پُرسکون عزم کے ساتھ محنت کی۔ اس کے ساتھی کارکنوں نے اس کے کام کی اخلاقیات کی تعریف کی لیکن انہیں اس پر ترس بھی آتا۔ راشد کے بارے میں کچھ ایسا تھا جس سے لگتا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے کسی ایسی چیز کا پیچھا کر رہا ہے جسے وہ کبھی نہیں پکڑ پائے گا۔
جیسے جیسے سال گزرتے گئے وہ محنت کرتا رہا۔ اس نے ایک دیہاتی عورت سے شادی کی جس نے اس میں ایک مہربان روح دیکھی‘ حالانکہ وہ غربت کے ایک پوشیدہ بوجھ سے دب گئی تھی۔ وہ شہر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے معمولی گھر میں رہتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی‘ ایک خاموش دکھ جسے وہ دونوں اٹھاتے تھے‘ لیکن اس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔ راشد کی زندگی انتھک کوششوں کا ایک چکر تھی۔ اس نے ایک ایک پیسہ بچایا‘ اس امید میں کہ ایک دن زمین کا ایک ٹکڑا خریدے گا اور ایک بہتر زندگی بسر کرے گا۔ لیکن جب بھی وہ قریب نظر آتا‘ کچھ غلط ہو جاتا۔ایک غیر متوقع بیماری‘ ہنگامی ضرورت یا فیکٹری میں اچانک چھٹی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کائنات اسے اس گڑھے سے باہر نکلنے سے روکنے کی سازش کر رہی ہو جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے پرائیو یٹ تعلیم کی کوشش کی‘ اس امید میں کہ وہ ایک ایسی ڈگری حاصل کر سکے جس سے بہتر ملازمت کے دروازے کھل جائیں۔ لیکن اپنی محنت کے باوجوداس کا تھکا ہوا دماغ فیکٹری میں طویل محنت کے بعد اسباق کو جذب کرنے سے قاصر تھا۔ بالآخراسے سب چھوڑنا پڑا۔ بہتر زندگی کا اس کا خواب پہنچ سے مزید باہر نکل گیا۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی گئی اس کی ناکامیوں کا وزن بڑھنے لگا۔ اس کی صحت خراب ہوگئی۔ اس کی کمر میں مسلسل درد رہتا تھا اور اس کے ہاتھ‘ جو کبھی مضبوط اور مستحکم تھے اب عمر اور تھکاوٹ سے کانپنے لگے تھے۔ پھر بھی وہ کام کرتا رہا‘ آگے بڑھتا رہا کیونکہ وہ بس اتنا ہی جانتا تھا۔ آخر میں اس کی زندگی بغیر کسی انعام کے انتھک جدوجہد کی کہانی تھی۔ اس نے کبھی دولت‘ شہرت ‘ یہاں تک کہ معمولی آسائش بھی حاصل نہیں کی۔ اس کی زندگی چھوٹی مگر خاموش ناکامیوں کی ایک سیریز تھی۔ خوابوں کا التوا چھوٹ جانے والے مواقع اور نا کامی کا مسلسل احساس۔ وہ جیتے جی مر گیا‘ خاموشی سے‘ دھوم دھام کے بغیر‘ اس کے انتقال کو اس دنیا نے بمشکل نوٹ کیا جس میں اس نے اتنی محنت کی تھی۔ اس کی موت کے بعداس کے پڑوسیوں نے اسے ایک اچھے‘ ایماندار آدمی کے طور پر یاد کیا جس نے سخت محنت کی تھی۔ اس کی نہ کوئی وراثت تھی نہ کوئی میراث‘ نہ کوئی نشان پیچھے رہ گیا۔ راشد ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنا سب کچھ دے دیا‘ صرف یہ جاننے کے لیے کہ کبھی کبھی‘ چاہے آپ کتنی ہی کوشش کریں‘ کامیابی ایک سایہ ہے جو ہمیشہ پہنچ سے دور رہتا ہے۔
ان سطور میں راشد ایک افسانوی کردار ہے لیکن حقیقی دنیا میں راشد ایک افسانوی کردار نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے‘ جو آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی کونے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ کسی بھی متحرک اور زندہ معاشرے میں کسی ایک فرد کی ناکامی اس کی انفرادی ناکامی نہیں بلکہ اسے بطور مجموعی پورے سماج کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کی ناکامی پر سماج ہمیشہ سوال اٹھاتا ہے اور ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ مساوی اور برابر مواقع کی جڑیں اسی تصور میں پیوست ہوتی ہیں۔ فرد کی ناکامی اس فرد کی کمزوریوں کے باوجود معاشرے کی ذمہ داری بھی بنتی ہے‘ کہ کہیں سماج اپنی اجتماعی ذمہ داری پوری کرنے اور فرد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مساوی مواقع مہیا کرنے میں ناکام تو نہیں رہا۔ یہ سماج کے پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہوتا ہے۔ اس باب میں سماج کی سب سے بڑی ذمہ داری دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ اگرچہ اس بات میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس طرح کے اقدامات کے لیے کسی بھی سماج کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ یہ تبدیلی‘ جسے ہم عرفِ عام میں انقلاب کہتے ہیں‘ راتوں رات نہیں آتی‘ اس میں سماج کی کئی متحرک قوتوں کی برسہا برس کی جدوجہد شامل ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے انقلاب کی تلاش میں سماج ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔ موجودہ صورتحال اور دستیاب وسائل کے محدودات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جن سے لوگوں کے دکھ درد میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ان کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے‘ مدد کی جا سکتی ہے۔ سماج کے اندر اس طرح کی پالیسی اور رجحانات کی موجودگی میں بھی لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور کئی طرح کی ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں‘ لیکن ایسا زیادہ تر ایسے افراد کے ساتھ ہوتا ہے جنہیں شاید کسی نہ کسی سطح پر شخصی اور ذاتی مدد و اعانت یا کسی حد تک خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو اُن کو زندگی کی ناہمواریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت دیتی ہے۔ اس صورت میں انفرادی‘ ذاتی اور شخصی ناکامی پورے سماج کا المیہ نہیں بنتی بلکہ فرد تک محدود رہتی ہے۔

بشکریہ ہم سب