100

جن کی ماں زندہ ھے ، ان کے لئے!!!

ماں کے ھاتھ کا لمس پیار کا ھو یا مار کا ، ایک سعادت ھے ، ویسے اجکل کی مائیں مارتی نہیں ہیں ، مارنا چائیے بھی نہیں ، لیکن ڈانٹ ڈپٹ کو غنیمت سمجھیں ، اے بچو اور نوجوانو ،اس کے لیے آپ ترسیں گے، تاریخ ماؤں کی ممتا اور اسلامی تاریخ ، تعلیمات قرآن اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماں باپ کی اہمیت سے بھری پڑی ہے ، آپ سوچیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال اور راستے میں ماں کا انتقال ، کمال صبر و محبت کا اظہار کیا ، 
دنیا میں اگر ماں نہ ھوتی تو اس کا حسن و جمال بے کار ھوتا ، رشتے کمزور اور انسان ایک جانور ھی ھوتا ، ماں ہی وہ پہلی درسگاہ ، محبت اور عقیدت کا مرکز و محور ھوتی ھے جس کے گرد پورا خاندان پروان چڑھتا ہے ، وہ ماں کسی مذھب اور معاشرت سے ہو محبت کی مٹی میں گوند کر ، اپنی صفت رحمت و شفقت سے مزین کرکے خالق کائنات نے تخلیق کیا ھوتا ھے تاکہ اِنسانیت اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو سمجھ سکے ، لوگوں پیروں کو ڈھونڈتے ہیں ، لیکن اپنے ہی گھر میں موجود سب سے بڑے پیر و مرشد کو دیکھ کر طمانیت حاصل نہیں کرتے ، اس کی خدمت کرکے عظمت حاصل نہیں کرتے ، اس کی قربت سے اللہ کی قربت کے طالب نہیں ھوتے ، غم و خوشی ماں سے بیان کر کے روحانی تسکین نہیں پاتے ، دعا اور دوا ماں کے لیے نہیں دیتے ، جو ماں دعا اور دوا دونوں اپنی اولاد کے دامن میں نچوڑ دیتی ہے ، اس کے پیٹ میں رہنے کی قیمت ادا نہیں کی جا سکتی ، باقی کیا قیمت ادا کریں گے ؟
ماں چلی جائے تو یہ احساس بھی ابھرتا ہے کہ 
دعا کو ھاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں۔۔۔۔ 
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے۔

ماں کی محبت اور عقیدت نہ افسانہ ھے نہ ناول اور نہ ڈرامہ ، یہ روایتی داستان بھی نہیں ھے ، بلکہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے البتہ محبت کے انداز مختلف ھو سکتے ہیں ، یہ خیال و تصور بھی نہیں ھے ، یہ دور قدیم کی کوئی دیو مالائی کہانی بھی نہیں ھے ، یہ آنکھوں سے اوجھل کوئی جنوں بھوتوں کی کوئی مثنوی بھی نہیں ، یہ اپنی مٹی کی حقیقت اور وہ سچائی ھے جہاں سے رب بولتا ہے آپ لاکھ بڑے ھو جائیں اس کے لیے بچے ہی رہتے ہیں ، وہ ناراض بھی ھو تو بدعا نہیں کرتی بس رو لیتی ہے ، ویسے وہ جتنا جلدی روتی ہے اتنے ہی جلدی خوش بھی ھو جاتی ھے ، بچے عموماً اپنی ماں سے سب کہہ دیتے ہیں وہ رات کو چن چن کر ان کے دکھ الگ کرتی ہے اور خوشیاں سمیٹ کر بچوں کی گود میں ڈال دیتی ہے مگر بچوں کو احساس تک نہیں ھونے دیتی ، ماں باپ سے جو بچے کتراتے ہیں ، بات نہیں بتاتے وہ دراصل اپنے ساتھ دھوکا کرتے ہیں ، وہ واحد رشتہ ھے جو خالص ھے باقی سب آپ سے کوئی نہ کوئی مفاد رکھ کر بات کریں گے ، اس لئے آج کے تیز رفتار زمانے میں ماں باپ کے علاؤہ کسی پر بھروسہ نہ کریں ، ماں کے بعد دوسرا رشتہ خالہ اور پھوپھیوں کا آتا ہے ،

پر کیا لگے کے گھونسلے سے اڑ گئے سبھی 
وہ اکیلی رہ گئی بچوں کو پال کر
۔
ماں کی کسمپرسی آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ بن چکی ہے اچھے خاصے لوگ اس کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں اور وہ حالات کے رحم و کرم پر سسکتی رہتی ہے ، زخم رستا ریتا ھے اور وہ بچوں کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہے ، 
ایک معاشرتی المیہ ہے کہ بیوی اور ماں میں اںتخاب اور اہمیت کو لوگ غلط انداز سے پیش کرتے ہیں ، بڑی اہم حقیقت ہے کہ معاشرے کا اہم رکن ماں ھے اور اس کا دوسرا روپ بیوی ھے ، جو فرق ڈالنے کے لیے نہیں اپنی ایک مکمل جگہ کے لیے آتی ہے ، یہ توازن قائم رکھنا مردوں کا کام ھے ،بیوی کا نہیں ، ماں بیٹوں کی زمہ داری ہے ، بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے ، ماں نے سب کچھ آپ کے لیے کیا ھوتا ھے ، بیوی کے لیے نہیں ، یہ توقع نہ رکھیں کے ماں کی خدمت بھی بیوی کرے گی ھاں وہ کرتی ہے تو اعزاز اور عظمت کی بات ہے مگر اس کے ذمے فرض نہیں , فرض بچوں کے ذمے ھے ، اس لئے اس المیے سے نکلیں اور خود اپنے ماں باپ کی خدمت کریں اس سے بڑا اثاثہ نہیں ملے گا ، بیوی بچوں کے فرائض ادا کرنا بھی آپ کے خاندان کی عظمت اور آپ کے بہترین کردار کی مثال ھے ، نہ ماں کو سسکتا چھوڑیں اور نہ بیوی بچوں کے حقوق سے کنارہ کشی کریں یہی آپ کی ترجیحات ھونی چاہیے،
کہتے ہیں ماں بیمار ھوئی ، ھسپتال گئی اور ڈاکٹر کے کان میں کہا کوئی سستا سا ٹیکہ لگانا تاکہ بچے پہ بوجھ نہ پڑے ، کئی مائیں تو بستر پر پاؤں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتی ہیں مگر تکلیف یا ھوسپٹل جانے کا نام نہیں لیتیں ، اگرچیکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر ماں کے جذبے کے آگے سب ہیچ ھے، میں کتنی ایسی ماؤں کو جانتا ہوں وہ مرتے وقت کہہ دیتی ہیں میرے بچوں کا خیال رکھیے گا ،ماں کے لیے پرائے بچے بھی اہم ھوتے ہیں ان کے لئے بھی والہانہ محبت رکھنے والا واحد رشتہ ماں ہی ھو سکتی ھے اور کوئی نہیں ، چند بچے ایسے بھی ھوتے ہیں کہ ماؤں کو اولڈ ھوم میں چھوڑ کر جاتے ہیں اور واپس پتہ تک نہیں کرتے مگر ایسا رویہ معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا تو بھی خیال رکھنا آپ کا فرض ہے،
میری ماں 6 ستمبر 2016,ء میں وفات پا گئیں تھیں ، آج تک زندگی میں ان کی کمی اور محبت محسوس کرتا ہوں ، بچپن سے آج تک ایک ایک لمحہ یاد رہتا ہے ، خوابوں اور کتابوں میں ماں ہی ماں نظر آتی ہے ، یہ میرا وہم ھے یا حقیقت لگتا ہے وہ گائیڈ کرتی رہتی ہیں اور ساتھ ساتھ ھوتی ہیں، اس لئے دوستوں کو کہتا رہتا ہے کہ ماں کی قدر کریں ، سب کچھ پا لیں گے ، رات جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا شاید ماں کے بغیر ممکن نہیں بنا سکتے آج جدید ٹیکنالوجی کے دور ھے لوگ کام کے لیے یا فضول دونوں صورتوں میں موبائل سکرین سے جڑے ہوئے ہیں ماں کو بچوں کی اور بچوں کو ماں خبر نہیں ، ایک بے ہنگم دنیا چل رہی ہے اگرچیکہ وقت کا تقاضا ہے مگر جنریشن ایکس اور وائی کا بڑا گیپ ھے ، جسے کم کرنا ھوگا ،اج کل کی مائیں زیادہ پڑھی لکھی ہیں اچھی بات ہے مگر اس علم و ہنر سے فایدہ اٹھا کر بچوں کی تربیت میں کردار ادا کریں ،یہی کام تو اہم اور بڑا ھے ، ماں باپ اور اولاد کا گیپ کم کریں گے تو نتائج اچھے آئیں گے ، ڈبے کے دودھ پر لکھا ھوتا ھے ماں کے دودھ کا بہترین نعم البدل ، حالانکہ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں ہے بلکہ ایک دفعہ بھی پیا ھو ساری زندگی اثرات رکھتا ہے ،
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے 
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا

ھماری ماں تو چلی گئی تھی لیکن جن کی زندہ ہیں ان کو خیال رکھنا ہوگا کہ ایسی ھستی پھر میسر نہیں آئے گی ، ایک ایک لمحہ ترسیں گے ، استاد اور رہنمائی تلاش کریں گے ، دکھوں کا مداوا ڈھونڈیں گے ، غموں کا بوجھ اتارنے کے لئے کندھے کی تلاش ھوگی ، لڑکھڑاتے ہوئے سہارے کی ضرورت ھوگی ، ماں ھوگی اور اس کی دعا ھوگی جو یہ سب کرے گی ، ابھی قدر کریں اور کل قدر پائیں ، کسی کے پاس مت جائیں ، ماں کی بیعت کر لیں ، بس دیکھ لیں گے فیوضات و برکات پائیں گے 
پنجابی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور ماں کی قدر اور ھماری ماں کے لیے دعا کیجیے ، 
جنہاں گھراں وچ ماں نئیں ہوندی 
اونہاں دے ویہڑے چھاں نئیں ہوندی 
پتر پانویں جان وی منگن 
مانواں کولوں ناں نئیں ہوندی
جے کر مانواں ہاں نہ آکھن 
رب ولوں وی ہاں نئیں ہوندی 
تیرے آگے رو لیندے ساں 
ھن تے نظر اتاں نئیں ہوندی ۔
سلام ماں تو جہاں ریے خوش رہے اور اپنی عظمتوں اور رحمتوں کے فیض بانٹتی رہے تو نے ہی خدا سے اور محبت کی زندگی جاوداں سے ملایا ، تیرا شکریہ ۔

بشکریہ اردو کالمز