29

سماجی بے چینی کی جڑ کہاں ہے؟

مجاہدین کی ضرورت پیٹ کے لیے روٹی اور بندوق کیلئے گولی تھی جو کمک کی صورت پاکستان انہیں فراہم کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کیے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا‘‘۔ یہ تھے وہ الفاظ جو مرحوم جنرل ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق نے اپنے والد کی برسی کے موقع پر ایک اُردو جریدے میں لکھے۔ انہوں نے یہ الفاظ ایسے موقع پر لکھے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ پاک افغان تعلقات پر نظر رکھنے والے دانشوروں نے اس بیان پر خاصی تنقید کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک ناپسندیدہ حقیقت کا بے وقت اظہار ہے‘ جو اس شکوے کو تقویت دیتا ہے کہ افغان جنگ میں افغانوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا‘ مگر جو لوگ تباہی و بربادی کو اپنے کار ہائے نمایاں قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں انہیں اس ردِعمل کی پروا نہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اس سلوک کے خلاف ردِعمل بھی شامل ہے۔
اب اس بات پر اتفاق ہوتا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بحران اور عدم استحکام کی وجہ سے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی برادری کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ افغانستان میں عدم استحکام دہشت گرد تنظیموں جیسے القاعدہ‘ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ خدشات پہلے دن سے موجود ہیں کہ بحران زدہ افغانستان میں یہ گروہ زیادہ آزادانہ طور پر کام کر سکتے ہیں اور افغانستان کو عالمی سطح پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کی سرگرمیاں افغانستان کے اندر تک ہی محدود نہیں رہ سکتیں بلکہ یہ پڑوسی ممالک تک پھیل سکتی ہیں۔ پاکستان‘ ایران اور وسط ایشیائی ممالک سے افغانستان کی قربت سرحدوں کے پار دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ اس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ ان ممالک کو انتہا پسندی سے متعلق اپنے اندرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ یہ چیلنجزپناہ گزینوں کا بحران پیدا کریں گے جس سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو گی۔ اس بحران کی وجہ سے افغانستان کے اندر اور اس کی سرحدوں کے پار لوگوں نے نمایاں نقل مکانی کی ہے۔ اس کے نتیجے میں آج افغانستان کے پڑوسی ممالک جیسے پاکستان‘ ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں پناہ گزینوں کی آمد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں جس سے معاشی اور سماجی تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔ پناہ گزینوں کا یہ بحران پہلے سے موجود سنگین انسانی المیے کو بڑھا رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو خوراک کی کمی‘ طبی سہولتوں کے ناقص انتظام اور ناکافی رہائش گاہوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میں علاقائی عدم استحکام ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کا پڑوسی ریاستوں پر اثر لازم ہے۔ ظاہر ہے پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں تو یہ ممالک افغانستان کے عدم استحکام سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ پناہ گزینوں کا بہاؤ‘ سرحد پار دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ میں اضافے کے امکانات علاقائی عدم استحکام میں معاون ہیں۔ یہ صورتحال پراکسی تنازعات کے لیے بھی راہ ہموار کرتی ہے۔ افغانستان کا عدم استحکام علاقائی طاقتوں‘ جیسا کہ بھارت‘ روس اور دیگر ممالک کی مداخلت کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے مفادات کے تحفظ کے لیے پراکسی تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو خطے کو مزید غیرمستحکم کر سکتے ہیں۔
اس گہرے بحران سے منشیات کی عالمی تجارت کے لیے بھی راہ ہموار ہوتی ہے۔ افغانستان افیون پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ عدم استحکام منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کے نتیجے میں منشیات کی عالمی سپلائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف دنیا بھر میں منشیات اور جرائم کو فروغ ملتا ہے بلکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بھی مالی مدد ملتی ہے۔ اس سے پڑوسی ممالک پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منشیات کی تجارت پڑوسی ممالک میں جرائم اور بدعنوانی میں اضافے کا باعث بنتی ہے کیونکہ منشیات کی سمگلنگ کے راستے انہی ممالک سے گزرتے ہیں۔ اس سے گورننس کمزور ہوتی ہے اور خطے کے مجموعی عدم استحکام کو بڑھاوا ملتا ہے۔ اس تناظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی سنگین صورت میں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور ان میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طویل مدتی سماجی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال بہت بڑے پیمانے پر بنیاد پرستی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں ماورائے عدالت قتل‘ تشدد اور شہریوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خلاف ورزیاں مزید تنازعات کو ہوا دے رہی ہیں۔
اس خطے میں حال ہی میں عالمی طاقتوں کی حرکیات میں تبدیلی نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ مغربی افواج‘ خاص طور پر امریکہ کے انخلا نے ایک خلا پیدا کیا ہے جسے دوسری طاقتیں جیسے چین‘ روس‘ بھارت اور دیگر علاقائی کھلاڑی پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی عالمی طاقتوں کی حرکیات کو بدل سکتی ہے اور نئے اتحاد اور تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ افغان حکومت کی طرف سے بین الاقوامی اصولوں کی پامالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی دہائیوں کی بین الاقوامی مداخلت کے بعد افغانستان کو مستحکم کرنے میں ناکامی سے عالمی گورننس کے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچ چکا ہے اور بین الاقوامی نظام مزید انتشار کی طرف جا رہا ہے۔ اس بحران کے اب اقتصادی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ علاقائی اقتصادی رکاوٹیں اور عدم استحکام تجارتی راستوں کو متاثر کر رہا ہے‘ بالخصوص وہ راستے جو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے گزرتے ہیں۔ اس سے علاقائی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ بالخصوص خشکی سے گھری وسطی ایشیائی ریاستوں کی معیشتوں پر‘جو افغانستان سے گزرنے والے تجارتی راستوں پر انحصار کرتی ہیں۔
دوسری طرف بین الاقوامی برادری کو انسانی امداد‘ تعمیرِ نو کی کوششوں اور امن قائم کرنے کی کارروائیوں سے متعلق بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ مالیاتی بوجھ بین الاقوامی وسائل پر دباؤ ڈال کر اصل عالمی مسائل سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیاد پرستی کا بڑی تیزی سے نظریاتی پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ انتہا پسندوں کو افغانستان کے اندر جگہ بنانے میں ملنے والی کامیابی عالمی سطح پر دیگر انتہا پسند گروہوں کے لیے باعثِ کشش ہے جس کے نتیجے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردوں کی بھرتیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مذہب کی انتہا پسندانہ تشریحات کا نظریاتی پھیلاؤ دوسرے خطوں کو بھی بتدریج غیر مستحکم کر رہا ہے‘ بالخصوص افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس وقت افغانستان میں بحران اور عدم استحکام ایک حقیقت ہے۔ یہ اس پورے خطے اور باقی دنیا کے لیے ایک کثیر جہتی خطرہ ہے۔ دہشت گردی کے خطرے اور انسانی بحران سے لے کر اقتصادی‘ سماجی اور سیاسی نتائج تک افغانستان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ پاکستان میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر سمیت دور دراز کے علاقوں میں افغان طرز پر جرگوں کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ اس سے سماجی بے چینی‘ عدم برداشت اور مذہبی منافرت فروغ پا رہی ہے۔ ایک مربوط کوشش کے بغیر یہ خطرات برقرار رہنے اور ممکنہ طور پر بڑھتے رہنے کا خدشہ ہے۔

بشکریہ ہم سب