حسینہ واجد ہی نہیں مجھے اس کے والد شیخ مجیب الرحمن بھی پسند نہیں تھے۔ ناپسندیدگی کی وجہ جبلی تھی۔ آج بھی لاہور کی وہ دوپہر یاد ہے جب 1969ء کے ابتدائی ایام میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن ایک ہی طیارے میں بیٹھ کر کراچی سے میرے شہر آئے تھے۔ دونوں کو ان دنوں کے صدر ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر اس کانفرنس کے انعقاد کو اپنے خلاف پھوٹی تحریک کی وجہ سے مجبور ہوئے تھے۔ شیخ مجیب کو اگرچہ ان ہی کی حکومت نے ”اگرتلہ سازش کیس“کے تحت بھارت کا ”کارندہ“ بتاکر جیل میں رکھا ہوا تھا۔
وطن عزیز کی سیاست اس برس دائیں اور بائیں بازو میں بڑی حد تک تقسیم ہوچکی تھی۔ تمام روایتی جماعتیں دائیں بازو والی تصور ہوتی تھیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ ان میں غیرسرکاری کونسل مسلم لیگ بھی شامل تھی۔ اس کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ تھے جنہیں محلاتی سازشوں کا موثر ترین کھلاڑی مانا جاتا تھا۔ انہوں نے ایوب خان کو پیغامبروں کے ذریعے قائل کردیا کہ اگر شیخ مجیب الرحمن بدستور جیل میں رہا تو ان دنوں کے مشرقی پاکستان میں جلاﺅ گھیراﺅ کی تحریک رک نہیں پائے گی۔ مجبور ہوکر ایوب خان نے ”اگرتلہ سازش کیس“ ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور مجیب گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے مغربی پاکستان تشریف لائے۔
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں ایوب خان کے خلاف چلائی تحریک کا پھیپھڑوں کے پورے زور سے نعرے لگانے والا کارکن بن چکا تھا۔ پولیس کی لاٹھیوں کو فلمی ہیروز کی طرح للکارتے ہوئے خود کو بہت طرم خان سمجھتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی مجھے اپنے جذبات کی ترجمانی کرتی محسوس ہوتی۔ بھٹو صاحب کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ پہنچنے والے گروہ میں اس لئے بھی شامل تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ لاہور پہنچنے کے بعد عوام کو یہ بتائیں گے کہ وہ ایوب خان کی بلائی گول میز کانفرنس میں شامل ہوں گے یا نہیں۔
بہرحال شیخ مجیب طیارے سے اتر کر میری یادداشت کے مطابق اپنے دیرینہ رفیق ملک غلام جیلانی کے گلبرگ والے گھر روانہ ہو گئے۔ جی ہاں عاصمہ جیلانی کے والد کا ذکر ہے۔ بھٹو صاحب مگر ایک ٹرک پر سوار ہوکر مال روڈ کی جانب چل پڑے۔نہر والے پل سے پہلے ہی ان کے حامیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم قافلے کی صورت چیئرنگ کراس کی جانب بڑھنے لگا۔ امید تھی کہ بھٹو صاحب پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچ کر عوام سے خطاب کریں گے۔ ان کے پنجاب اسمبلی پہنچنے تک عصر کا وقت ہو گیا۔ اپنے خطاب سے قبل بھٹو صاحب نے حبیب جالب کو نہایت چاﺅسے ٹرک پر بلاکر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور ان سے ”تازہ کلام“ کی فرمائش کر دی۔ جالب صاحب نے وہاں ”خطرہ ہے زرداروں کو- امریکہ کے پیاروں کو…خطرے میں اسلام نہیں“ والی نظم سنا کر ماحول کو سحر زدہ بنا دیا۔ مبہوت ہوئے مجمعے کو بھٹو صاحب نے یہ اعلان کرتے ہوئے جگایا اور گرمادیا کہ وہ ایک فوجی آمر کی بلائی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے عوامی جذبات سے ”غداری“ کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ ایوب خان کے لئے واحد راستہ فقط صدارت سے استعفیٰ دینا ہے۔
ان کے اعلان نے مجھ جیسے سادہ لوح نوجوانوں کے جذبات بھڑکا دیئے۔ ہم فلک شگاف نعروں سے ”انقلاب“ کا خیرمقدم کرتے رہے۔ ان کی تقریر کے دوسرے دن عصر کے قریب شیخ مجیب نے لاہور کے ناصر باغ میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ عوامی لیگ کے ملک حامد سرفراز جیسے ثابت قدم رہ نماﺅں کی بدولت عوام کی مناسب تعداد مجیب کی تقریر سننے آئی تھی۔ دیگر جماعتوں کے حامی اور کارکن بھی وہاں موجود تھے۔میری دانست میں وہاں آئے لوگوں کی اکثریت متجسس تھی کہ شیخ مجیب کے ”اصل خیالات“ کا پتہ لگائے۔ مجیب کی تقریر شروع ہوتے ہی مگر اس کو غدار پکارتے ہوئے ہلڑ بازی شروع ہو گئی۔ ہلڑبازوں نے لاﺅڈ سپیکر کی تاریں بھی کاٹ دیں۔ تھوڑی دیر یں مجمع سے آواز آئی کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے جماعت اسلامی کے بھیجے ”غنڈے“ ہیں۔ شیخ مجیب نے فی الفور جواب دیا کہ اسے بخوبی علم ہے۔ تاہم آج کے بعد ”مولانا مودودی کو ڈھاکہ میں جلسے کے لئے میری اجازت درکار ہو گی“۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ جلسے سے روانہ ہو گیا۔ مذکورہ واقعہ کے چند ہفتوں بعد جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان مدعو کیا۔ وہ مگر جلسے سے خطاب نہ کر پائے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے ہنگامہ آرائی سے اس جلسے کے تمام انتظامات غارت کر دیے۔ پلٹن میدان سے آئی خبروں نے مجھے جماعت اسلامی کا ناقد ہونے کے باوجود یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ شیخ مجیب اور اس کی جماعت بنیادی طور پر جمہوری نہیں فسطائیت پرست ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس ملک کا بانی رہ نما ہوتے ہوئے شیخ مجیب نے فسطائی انداز میں حکومت چلانے کی کوشش کی اور اپنی ہی بنائی فوج کے ہاتھوں بے رحمی سے خاندان سمیت قتل ہو گیا۔ شیخ مجیب کی بنگالی عوام کی اکثریت میں بے پناہ مقبولیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی بنائی جماعت کے فسطائی رویے لیکن میں نے 1990ء کی دہائی میں بنگلہ دیش کے تین بار سفر کے دوران بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ اس سب کے باوجود نرم دل کا مالک ہوتے ہوئے شیخ مجیب کے درد ناک انجام سے دل فسردہ ہوا۔ حسینہ شیخ کے حالیہ انجام کے بارے میں اگرچہ ایسے جذبات نہیں ابھرے۔ ماضی کی کہانیاں ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئیں۔ فلمی زبان میں فاسٹ کٹ لگا کر حال میں آ دھمکتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے تحریک انصاف کے بے شمار عقیدت مند نوجوان مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ عاشقان عمران بھی پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا ”انقلاب“ لانے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ بنگلہ دیش میں ان کے ہم عمر نوجوانوں نے ”نظام کہنہ“ کو تار تار کر دیا ہے۔ مسلسل 15 سال تک اقتدار میں رہی حسینہ واجد اس کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینے کو مجبور ہوئی۔ بوسیدہ نظام کا تختہ الٹنے کے بعد اب ”نیا بنگلہ دیش“ تشکیل دینے کے ارادے ہیں۔ میرے جھکی ذہن کو مگر یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت ڈاکٹر محمد یونس 82 برس کا ہو چکا ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کا سربراہ بنانے پر مجبور کیا گیا۔ نوجوانوں کے پاس ”انقلاب“ کے خواب تو ہیں مگر انہیں عملی صورت دینے کے لئے کوئی نقشہ اور حکمت عملی میسر نہیں۔ ایسے حالات میں پہلے سے موجود ریاستی اداروں اور انتظامی بندوبست کی مدد درکار تھی۔ بنگلہ دیش کے تمام ریاستی اداروں سے مگر لوگ خوف سے مستعفی ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز افسران کو خوف لاحق ہے کہ انہیں عوامی لیگ کے ”چمچے “ اور اجرتی قاتل“ قرار دیتے ہوئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ پولیس کی تقریباََ تمام نفری اپنی وردیاں اورستارے تھانوں میں چھوڑ کر غائب ہو چکی ہے۔ ”نئی حکومت“ کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ جرائم پر نگاہ رکھنا تو دور کی بات ہے ٹریفک کو بھی رواں کیسے رکھے۔ بنگلہ دیش کے سٹیٹ بینک کا گورنر چار سینئر اہلکاروں سمیت مستعفی ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اپنے فرائض سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ موثر انتظامی ڈھانچے کو مسمار کر دینے کے بعد ”انقلابی“ حکومت بنگلہ دیش کے حالات معمول پر لانے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ جس ڈاکٹر یونس کو بہت چاﺅ سے عارضی حکومت کا سربراہ بنایا گیا ہے وہ ریاستی اداروں میں کلیدی عہدوں پر افسران کی تعیناتی کے حوالے سے ”کھلے ہاتھ“ سے محروم ہے۔ جس شخص کا بھی انتخاب کرتا ہے ”انقلابی“ طلبہ اسے ”عوامی لیگ“ کا ”پکاآدمی“ ٹھہراتے ہوئے حقارت سے رد کردیتے ہیں۔ بنگلہ دیش قصہ مختصر ان دنوں ”مسلسل انقلاب“ کی حالت میں ہے۔ کامل انتشار وابتری کے اس موسم کو کب تک برداشت کیا جا سکتا ہے؟اس سوال پر غور کرتے ہوئے میرا امیدوں سے محروم اور جوانی کے سارے خواب ٹوٹنے کی وجہ سے شکستہ ہوا دل یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہے کہ بالآخر مصر کی طرح بنگلہ دیش میں بھی وہاں کی فوج میں سے کسی السیسی کو آگے بڑھنا ہوگا۔ جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ ”نظام کہنہ“ کو ملیامیٹ کرنے کا ایک اور خواب ٹوٹ جائے گا۔ یہ سب سوچتے ہوئے یاد آیا کہ میری نسل واقعتاعبداللہ حسین کی بیان کردہ ”اداس“ نسلوں ہی کی نمائندہ ہے جس کے ”تاہنگاں والے (خواہشوں بھرے) نین“ کبھی سکھ کی نیند نہیں سو پائیں گے۔