شہناز اپنی پانچ بیٹیوں کے ساتھ تقریبا دس سال بعد مجھ سے ملنے آئی تھی غربت بے بسی لاچارگی افلاس کمزوری خوراک اور خوشی کی کمی اُس کے انگ انگ سے مسلسل نشر ہو رہی تھی وہ غربت افلاس کمزوری اور بیماریوں کا چلتا پھرتا اشتہار نظر آرہی تھی اوپر سے وہ پانچ لڑکیوں کی ماں بن کر وقت سے پہلے بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی سر میں چاندی اور جسم میں مختلف بیماریوں کے جراثیموں سے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا بیٹے کی تلاش میں بار بار ماں بننے کے عمل سے گزر کر اُس نے اپنی جسمانی توانائی ضائع کر دی تھی پرانے کپڑے اور پھٹی ہوئی جوتی اُس کی غربت کی کہانی سنا رہی تھی بچیوں کے زرد کمزور چہرے بھی اُس کی غربت کی عکاسی کر رہے تھے وہ شکست خودرہ شکل بنائے میرے سامنے بیٹھی تھی اِس شہناز راجپوت سے میں بلکل بھی واقف نہیں تھا میں تو د س سال پہلے شوخ چنچل جوان خوبروروشن رنگوں سے بھرپور امیر زادی شہناز کو جانتا تھا لیکن وقت مشکل حالات غربت دیمک کی طرح اُس کو چاٹ گئے تھے میں اُس جوان زندگی کے شوخ رنگوں سے بھرپور شہناز کو کیسے بھول سکتا تھا جو مجھے بہت سارے چیلنج دے کر گئی تھی دس سال پہلے شہناز کی رگوں میں جوان خون ابلتا تھا چہرے پر جوانی کی تازگی اور جسم میں جوانی انگڑائیاں لیتی وہ جوانی جب انسان خود کو فاتح عالم خیال کر تا ہے لیکن جب جسم بیماریوں کی آما جگاہ بنتا ہے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا ہے تو پائوں زمین پر لگتے ہیں اور انسان اپنے اطراف میں دوسروںکو دیکھتا اورمحسوس کر تا ورنہ جوانی میں تو اپنی ہی ذات کا قیدی ہو تا ہے شہناز دس سال پہلے مُجھ سے ناراض ہو کر گئی تھی چند دن پہلے اِس کا فون آیا اُس نے اپنا تعارف کرایا تو میں حیران ہوا کہ یہ تو مُجھ سے نفرت کرتی تھی اِس کے لہجے میں بلا کی شدت اور غرور تھا لیکن چند دن پہلے نہایت عاجزی اور نرمی سے بات کر کے ملنے کی خواہش کررہی تھی تو میں نے اجازت کے ساتھ کہا بیٹی تمہارا والد میرا دوست تھا تم کل بھی اور آج بھی میری بیٹی ہو بیٹیاں ناراض بھی ہو جائیں تو ہمیشہ اُن کے دل سے دعا ہی نکلتی ہے اور تم آج بھی میرے لیے قابل احترام بیٹی ہو جب چاہو آجائو تو آج وہ اپنی پانچ بیٹیوں کے ساتھ میرے سامنے موجود تھی لیکن گردش ماہ و سال نے اُس کی جوانی غرور رنگ لالی چھین لی تھی اب وہ پہلے والی شوخ چنچل شہناز نہیں بلکہ ادھیڑ عمر بیمار زرد چہرے کمزور جسم والی عورت تھی میں تیار تھا کہ وہ جو باتیں دعوے کر کے گئی تھی آج اُن کو دہرانے یا سچ ثابت کر نے آئی گی کہ میں جیت گئی پروفیسر انکل آپ ہار گئے لیکن وہ تو ہار کر آئی تھی یہ تو اُس کی پرچھائی تھی وہ شہناز تو وقت اور کڑے مشکل حالات نگل گئے تھے مجھے دس سال پہلے والی شہناز یاد آگئی جو بیس سال کی دلکش جوان لڑکی تھی ایک بڑے سرکاری آفیسر کی اکلوتی بیٹی والدین کی اکلوتی ہونے کی وجہ سے انتہائی لاڈلی اور محبوب تھی جو اس کی منہ سے نکل جاتا جب تک پورا نہ ہو تا گھر کو سر پر اٹھائے رکھتی نئی نئی جوانی آئی باپ نے سالگرہ پر مہنگا مو بائل لے کر دیا چند مہینے موبائل استعمال کے بعد خراب ہوا تو دوست کے ساتھ موبائل رئیپیرنگ کی شاپ پر گئی تو موبائل ٹھیک کرنے والے ان پڑھ لڑکے سے تعارف ہو الڑکا تیز شارپ تھا تگڑی مرغی دیکھ کر اُس نے اِس کو پھنسانے کی کو شش کی اور کامیاب ہو گیا شہناز اُس لڑکے کے جال میںپھنسی چلی گئی یہاں تک کہ بیس سال کی عمر میں گھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ میں نے اُس لڑکے سے شادی کر نی ہے اب ایک معاشرے کا مشہور و معروف سرکاری آفیسر جس کو زمانہ جانتا ہو اُس کے لیے یہ قیامت کی گھڑی تھی جب والدین نے روکنے اور سمجھانے کی کو شش کی لڑکی نے نعرہ مارا میں گھر سے بھاگ کر شادی کر لوں گی لہذا مجبورا جا کر لڑکے کا پتہ کرا یا تو پتہ چلا اُس کی پہلے سے شادی ہے بیوی روٹھ کر میکے بیٹھی ہے شہناز کو آکر بتایا اُ س کا تین مرلے کا گھر ہے پہلے سے شادی شدہ ہے تو چپ کر گئی لیکن لڑکے نے پھر باتوں میں پھنسا لیا کہ بیوی تو تمہاری وجہ سے چھوڑی ہے میں اصل عشق تم سے کر تا ہوں شہناز نے پھر نعرہ مارا میری شادی اُس سے کرو نہیں تو گھر سے بھاگ جائوں گی اب والدین نے بیٹی کو روکنے کے لیے بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا اِس بھاگ دوڑ میں میرے پاس بھی آئے میں نے بہت زور لگایا لیکن مقدر میں ذلت تھی لڑکی نہیں مانی میں نے شہناز سے ملاقات کر کے بہت سمجھایا لڑکا فراڈ یاہے تمہارے لائق نہیں ہے تو شہناز نے میرے اوپر الزامات لگانے شروع کر دئیے کہ آپ کو میرے والدین نے خرید ا ہے اِس لیے میری مخالفت کر رہے ہیں میں نے بہت سمجھایا لیکن شہناز ضد پر قائم رہی پھر باپ نے شہناز کی شادی اُس لڑکے سے کر دی لیکن اِس غم کو برداشت نہ کر سکا شادی کے چند دن بعد ہی انتقال کر گیا اور میرا تعلق بھی ختم ہو گیا آج دس سال بعد شہناز شکستہ حالت میں میرے سامنے تھی رو رو کر بتا یا والد کے بعد والدہ بھی ساری جائداد یتیم خانے کو دے کر دنیا چھوڑ گئی مجھے پہلی ہی رات غلطی کا احساس ہو گیا کہ میں نے بہت غلطی کی ہے لیکن جو بڑھکیں والدین اور آپ کے سامنے ماری تھیں ان کو سچ ثابت کر نے کے لیے گزارہ کر نا شروع کردیا سر میں نے تین مرلے کے اوپر والے گرم حصے میں رہتی ہوں ائر کو لر لگانے کے بھی پیسے نہیں ہیں میاں اپنی پہلی بیگم کو بھی لے آیا میں میڑک پاس تھی گلی کے سکول میں جاب کر تی ہوں میاں سے تقاضہ کروں تو مارتا ہے وہ باپ جب میں سکول سے گھر آتی تھی تو گھنٹہ پہلے اے سی چلا دیتا تھا کہ میری بیٹی کو ٹھنڈا کمرا ملے جو میر ی ہر بات منہ سے نکلتے ہی پوری کر تا تھا بہترین لباس خوارک فروٹ ہر وہ چیز جو میں مانگتی تھی اُن والدین کو چھوڑ کر اِس تندور نما گرم کمرے میں زندگی گزار رہی ہوں والدین زندہ ہوتے تو جا کر معافی مانگتی لیکن وہ تو منوں مٹی کے نیچے سو گئے میں جلاد نما خاوند کے ساتھ سزا کی زندگی گزار رہی ہوں کاش میں والدین کا گھر نہ چھوڑتی گھر سے نہ بھاگتی کاش وہ لڑکیاں جو گھروں سے شفیق والدین کو چھوڑ کر بھاگتی ہیں ایک بار سوچ لیں کہ یہ ظالم معاشرہ ان کا انتظار کر رہا ہے شہناز دیر تک روتی رہی معافیاں مانگتی رہی اور میں سوچ رہا تھا کاش لڑکیاں گھر چھوڑنے سے پہلے سوچھیں کہ باہر معاشرہ کتنا ظالم ہے ۔
63