پاکستان تحریک انصاف (PTI) پر پابندی کی کوششیں ایک طویل پس منظر رکھتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے خلاف پابندی کی باتیں پہلی بار اُس وقت سننے میں آئیں جب شہباز شریف نے 2022 میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ تاہم، یہ بحث بعد میں شدت اختیار کر گئی خاص طور پر 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد جب عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں ملک بھر میں تشدد پھیل گیا۔موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی بات کو اس بنیاد پر پیش کیا کہ پارٹی ریاست کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف کام کر رہی ہے۔ مزید برآں، حکومت نے اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی بات کی ہے۔
سیاسی جماعت پر پابندی کی بات آئی تو یہ ایک ناممکن سا محسوس ہونے لگا بالخصوص ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کو ایک بار پھر سے ریلیف ملنے لگا ہے اور عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے میں بھی تحریک انصاف کو کافی ریلیف دے دیا ہے اور اسے سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے ۔ بہرحال ہم پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں کہ پہلے کب اور کون سی جماعتوں پر پابندیاں عائد ہوتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ پابندیاں دو طرح کے حالات میں لگائی گئیں پہلی طرح کے حالات فوجی آمروں کے ادوار کے تھے یا جب مارشل لاء لگتا تو سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی تھیں اور دوسری طرح کے حالات وہ ہیں کہ جب کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ملکی مفاد کے خلاف کوئی اقدام کیا جاتا تو سول حکومتیں ان پر کلی یا جزوی طور پر پابندیاں عائد کر دیتی ہیں۔
پہلے ہم فوجی حکومتوں کے دوران سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔پاکستان میں 1958 میں پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیا۔ اس دوران صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی اس وقت اٹھائی گئی جب ایوب خان نے 1962 میں نیا آئین متعارف کرایا۔1977 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا اور اس دوران بھی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔ سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں اور کئی رہنماؤں کو قید کر دیا گیا۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد یہ پابندی ختم کی گئی۔1988 میں جنرل ضیاء الحق کے حادثے میں موت کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور سیاسی جماعتوں پر عائد پابندی ختم ہو گئی۔ تاہم، 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا نافذ کیا اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پھر سے پابندیاں لگائیں۔
پاکستان میں سول حکومتوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں پر مختلف وجوہات کی بنا پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہاں کچھ اہم واقعات پیش کیے جا رہے ہیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بعض قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتوں پر پابندیاں عائد کیں۔ اس دوران نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔1990 کی دہائی میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کے خلاف کارروائیاں کیں اور اسے کئی بار پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے۔اگرچہ پرویز مشرف کی حکومت فوجی تھی، لیکن اس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی پابندیاں لگائیں۔ تاہم، بعد میں ان پابندیوں کو ختم کر دیا گیا۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ پی ٹی ایم کو کئی مواقع پر پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ دنوں میں سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی کی بجائے ان کی سرگرمیوں پر محدود پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سول حکومتوں نے مختلف اوقات میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی ہیں، جو کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے ہیں۔
اب اگر تحریک انصا ف پر پابندی عائد کی گئی تو یہ بھی ملکی سیاست میں اہم موڑ ثابت ہو گی ۔ کئی سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق، حکومت کا یہ اقدام ایک مستقبل کی سیاسی بحران کو مزید گہراکرنے والا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس پابندی کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ عدلیہ کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے اور ماضی میں بھی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے دیے ہیں۔دیگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے ایک دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے اور یہ ممکن ہے کہ عدلیہ اس پابندی کو ختم کر دے۔ حالیہ حالات میں، پی ٹی آئی کی قیادت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کئی رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔حکومت کے اس اقدام کے پیچھے مقاصد اور اس کے ممکنہ نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ عدلیہ اس معاملے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔