حلقہ احباب میں سے ایک معتبر نام محترم حاجی نواز ودھن کا بھی ہے،ان کا تعلق ہمارے گائوں اور برادری سے ہے،ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جماعت اسلامی میںشمولیت سے پہلے سید مودودی کی جس کتاب کا مطالعہ کیا تھا وہ ''خلافت و ملوکیت'' تھی، موصوف طویل عرصہ سعودی عرب مقیم رہے، جماعت اسلامی سے ان کا تعارف وہیں ہوا،جماعت اسلامی کے انتہا ئی مخلص افراد میں ہوتا ہے، انھوں نے،دامے،درمے، قدمے،سخنے اس کے لئے ہمیشہ ایثار کیا ہے، ان میں حس مزاح بھی خوب پائی جاتی ہے،ایک دفعہ شوری کے اجلاس میں شریک تھے،انفرادی رپورٹ کا عمل جاری تھا، امیر ضلع فردا فردا پوچھ رہے تھے، جب انکی باری آئی، تو انھوں نے کہا آپ کے حلقہ کی رپورٹ آگئے نہیں گئی، حاجی نے برجستہ جواب پنجابی میں دیا '' اگر اگے نیئں گئی تے فیر پچھے وی تے نیئں گئی'' یہ سن کر سب کے چہرے کھل اٹھے جب بھی کوئی لیڈر جماعت ضلع وہاڑی آتا اسے اپنے حلقہ گڑھا موڑ لانے کی کاوش کرتے۔
محترم قاضی حسین احمدجب دوسری مرتبہ سنیٹربنے تو انکا دورہ غالباً وہاڑی کا تھا،وہ ملتان سے بذریعہ روڈ جارہے،حاجی صاحب نے ان کا مختصرخطاب گڑھاموڑ رکھوا لیا،اورراقم کے علاوہ بڑے بھائی ڈاکٹر جاوید اصغر کو بھی مدعو کر لیا، قاضی صاحب نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ آپ دونوںہم شکل لگتے ہیں ،کیا جڑواں بھائی ہیں،میں نے کہا جی ہاں ، برادر ڈاکٹر جاوید اصغر نے بھی ان سے مصافحہ کیاپھرمزید سوالات کئے، میرا ان سے یہ پہلا تعارف تھا۔
ملک بھر کی سیاسی قیادتیں، صحافتی حلقے معترف ہیں کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی پاکستان کو ایک نئی جہت دی،انکی مقبولیت کا آغاز''کاروان دعوت محبت ''سے ہوا،جس میں انھوں نے ملک بھر کے دورے کئے،اس عہد میں ''ظالمو قاضی آرہا ہے'' نعرہ زدعام ہوا،پاکستانی سیاست میں یہ منفرد تجربہ تھا،وہ اتحاد امت کے داعی تھے،انھوں نے سرکاری سطح پر1990 میں یوم یک جہتی کشمیر منانے کی تجویز دی، جسے سرکار نے مان لیا،مولانا شاہ احمد نورانی سے ان کے قلبی اورخصوصی تعلقات تھے۔
قاضی حسین احمد نے اپنی کتاب''اسلام مسلمان اور پاکستان'' میں رقم کیا ہے کہ نبیۖ مہربان کے طریقہ کے مطابق انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا، انھیں منظم کرنا انکی تربیت کرکے معاشرہ کی اصلاح میں لگانا،1941 میںجماعت اسلامی کا قیام اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا،اسکی قیادت نے اب تلک ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اتحاد امت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی دستوری مہم میں بانی جماعت سید ابواعلیٰ مودوی نے کلیدی کرسار ادا کیا،پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے1949 میں قرار داد مقاصد منظور کرلی،یہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا کے باہمی مشورہ سے مرتب ہوئی پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں اسے پیش کیا۔وہ لکھتے ہیں، جماعت اسلامی پر ایک اعترض ہے کہ اس کے لوگ صحابہ اکرام کو معیار حق نہیں مانتے،حقیت یہ ہے کسی کا کوئی فعل یا قول اللہ اس کے رسولۖکی تعلیمات پر پرکھا جائے گا،قرآن وسنت کے معیار پر جو پورا اترے گا وہی حق ہے،جماعت کے دستور میں ہم یہ کہتے ہیں کہ
معیار حق صرف اللہ اور اسکے رسولۖ ہیں۔
محترم ڈاکٹر فرید پراچہ اپنی کتاب''میرے راہنماء میرے ہمنوا'' میں لکھتے ہیں کہ قاضی محترم سمجھتے تھے کہ دینی جماعتوں کو اکھٹا ہونا چاہئے ورنہ فرقہ واریت کی آڑ میں یہاں اسلامی نظام اور جہاد کو متنازعہ بنا کر پاکستان کو ناکام ریاست اور غیر محفوظ ملک ثابت کر کے اس کے ایٹمی
اثاثہ جات کو عالمی اداروں کی تحویل میں دینے اور آئین پاکستان کی اسلامی حیثیت ختم کرانے کے عالمی ایجنڈہ کو تقویت ملے گی،اس خدشہ کو بھانپتے ہوئے اسلام آباد میں اتحاد امت کی کامیاب عالمی کانفرنس کاانعقاد کیا۔
قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نرسیمارائو نے کہا تھا کہ پاکستان کے اسلامی نظریہ نے ہمارے15کروڑ مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اگر یہ ملک سیکولر بن جائے تو ہمیں اس کے وجود پر اعتراض نہیں،مگر قوم کو اسلام سے دور کرنے کی سازش کی جارہی ہے،سیکولر اور لادین قیادت اس کو اکھٹا رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔65
اور71 کی جنگوںافغان حکومت سے اختلافات کے باوجود ظاہر شاہ نے کہا ہمارے بارڈر سے فوجیں اٹھا لے جائیں، ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا،جنرل مشرف نے کابل میں دوست حکومت ختم کرکے مخالف قائم کی،جلال آباد میں زیر تعلیم کچھ طلباء میرے پاس آئے اور بتایا کہ دن رات افغان میڈیا سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ افغانوں کا ایک ہی دشمن ہے وہ پاکستان ہے۔انڈیا کی یہ غیر ضروری مداخلت کا یہی نتیجہ ہے۔
بجٹ پر لکھا اچھا وہی ہوتا ہے کہ جس سے ملک کی اکثریت،غریب،مزدور،کسان اور محرون طبقہ خوش اور مطمئن ہو ،نبیۖ مہربان نے فرمایا '' بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں محروم اور مسکین کا حق نہ ہو''پاکستان میں ہر بجٹ بدترین ولیمہ ہی ہوتا ہے جس میںمزدور اور کسان کو کچھ نہیں ملتا۔
ہماری کوشش رہی ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کو یہ بات سمجھائی جائے پنجاب یونیورسٹی میں قبضہ کرنے کی بجائے آزاد فضا میںاسلامی دعوت کے ذریعہ اپنے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے،جب سے طلباء یونین پر پابندی لگی ہے،طلباء نے اداروں پر قبضے کرنے شروع کر دیئے ہیں،جس کا قبضہ ہے وہ برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے جس سے خرابیاں پید ا ہوئی ہیں، دعوت کے کام میں مار کھانا پٹائی کرنے زیادہ مفید ہے۔
اپنی امارت کے دور میں انھوں نے بہت سے ادارں کی بنیاد رکھی،جو صدقہ جاریہ کے طور پر فعال ہیں، ان میں قابل ذکر الخدمت فائونڈیشن پاکستان،غزالی ٹرسٹ،شہدائے اسلام فائونڈیشن،معار ف اسلامی ہیں،متحدہ مجلس اتحاد اور ملی یکجہتی کونسل کے قیام کا مقصد فرقہ واریت کی شدت کو کم کرنا اور مذہبی جماعتوں ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا،جس میں قاضی حسین احمد کو بڑی کا میابی ملی۔
وہ رقم کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب برصغیر کے مسلمانوں کو ترک جہاد کا مشورہ دیا تو شاعر مشرق نے مغرب کی اسی دوغلی پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
باطل کے فال وفر کی حفاظت کے واسطے۔یورپ زدہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر۔
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے۔مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی شر؟
قاضی حسین احمد کو کلام اقبال ازبر تھا،وہ فیض احمد کے اشعار بھی سیاسی جلسوں میں کہتے تھے، متحدہ مجلس عمل نے17ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں محفوظ راستہ جنرل مشرف کو دیا سیاسی حلقوں یہ ہمیشہ زیر تنقید رہا،ہر چند یہ فیصلہ مذہبی جماعتوں کی ساری قیادت کا تھا۔
قومی سیاست میں قاضی حسین احمد نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں،باجوڑ میں مدرسہ پرامریکی ڈراون حملہ پر بطور احتجاج
بحثیت پارلیمنٹ ممبر مستعفی ہو گئے،ان پر خود کش حملہ بھی ہوا تاہم وہ محفوظ رہے، انھوں نے از خود افغان جہاد میں حصہ لیا اور غازی کا رتبہ حاصل کیا، اللہ تعالیٰ انکی تمام تر کاوشوں کو شرف قبولیت عطا کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے آمین۔
